Tuesday, February 23, 2016

معراج کہاں سے شروع ھوئی۔ قاری حنیف ڈار

معراج کہاں سے شروع ھوئی ،،،،،،،،،،،
ایک اشتہار دیکھا کہ اللہ جس پر ناراض ھوتا ھے اس کو اس چیز کی طلب میں لگا دیتا ھے جو اس کے مقدر میں نہیں ھوتی ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ھم نے اس سے عدم اتفاق کیا ھے ،،،،،،،،،،،
ھم کہتے ھیں کہ اللہ نے جس کو دردِ دل سے نوازنا ھوتا ھے اس کو ایسی چیز کے پیچھے لگا دیتا ھے جو اس کے مقدر میں نہیں ھوتی ،،،،،،،،،،،،،
نبئ کریم ﷺ نے اپنی چچازاد ام ھانی رضی اللہ عنہا کی طلب کی تھی ، وھی آپ کی طلب تھیں ،، آپ نے چچا کو پیغام دیا جسے چچا حضرت ابو طالب نے نہ صرف ٹھکرا دیا بلکہ ٹھیک وھی ریمارکس بھی دیئے جو کوئی کسی غریب کے لئے دے سکتا ھے ،،
واضح رھے ھمارے قوال اور مفسرین حضورﷺ کی معراج کا سفر بھی ام ھانیؓ کے گھر سے شروع کرتے ھیں ،، گویا ایک پچھتاوہ ھے ان کے اندر کہ جس کو کہانیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کرتے ھیں ،، " خواب راحت میں تھے ام ھانی کے گھر " سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ نبئ کریم ﷺ اپنی چھوٹی چھوٹی بچیاں اکیلی چھوڑ کر ایک نامحرم شادی شدہ چچا زاد کے گھر رات کے تیسرے پہر خوابِ راحت میں کیوں تھے ؟ جبکہ اس چچا زاد کا شوھر نبئ کریم ﷺ کا جانی دشمن تھا ، واقعہ معراج نبئ کریم ﷺ کے اعلان نبوت اور حضرت خدیجہ و حضرت ابی طالب دونوں کی وفات کے بعد عام الحزن میں پیش آیا ،،،،
معراج شریف کے سفر کے ابتدائی حصے سے متعلق جو کچھ ھمارے واعظ حضرات کہتے یا اخبارات مین لکھتے ھیں،وہ قرآن اور صحیح احادیث کے 180 ڈگری خلاف ھے، مگر قربان جایئے اس اھلسنت نام کے کہ اس نام کو ڈبل کلک کرتے ھی عقل نام کی چیز سب سے پہلے سو جاتی ھے اور پھر جو زھر مرضی ھے اسے پلا دو،یہ سبحان اللہ کہہ کر پی جاتا ھے،، اخبارات کے لئے لکھنے والے مولویوں کی پیشہ ورانہ مجبوری ھوتی ھے کہ انہوں نے ھر سال کوئی نیا آئٹم ڈال کے دینا ھے تو مضمون بکنا ھے،، ھر فوت شدہ عالم کچھ زیادہ مقدس ھو جاتا ھے،اور پہلے پیسوں میں ھی اس کا لکھا ھر سال چھاپ دیا جاتا ھے،،ھمارے یہاں سارے قصے اور کہانیاں جو دین کے نام پر چل رھے ھیں وہ زیادہ تر تفسیر ابنِ عباس کے مین گیٹ سے داخل ھوئے ھیں حالانکہ یہ تفسیر کلبی نام کے مؤرخ اور مفسر کی لکھی ھوئی ھے،،مگر ھم ابنِ عباسؓ کا نام سنتے ھی ھپناٹائز ھو جاتے ھیں،جبکہ میرا مشورہ یہ ھے کہ تفسیر ابنِ عباس کا نام آتے ھی ھمیں فوراً الرٹ ھو جانا چاھئے ! قرآن اور بخاری و مسلم اس سفر کو حرم اور حرم کی بھی ایک مخصوص جگہ حطیم سے شروع کرتے ھیں،،مثلاً اللہ پاک کے یہ فرما دینے کے بعد کہ" سبحان الۜذی اسری بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ،،( بنی اسرآئیل 1 ) مزید کسی کے کہنے کو کچھ باقی نہیں بچتا مگر ھمارے یہاں ایک قوالوں کا دین بھی پایا جاتا ھے،جو قوالیوں کے ذریعے ڈھول کی تھاپ پر کوٹ کوٹ کر بھرا جاتا ھے،اور عزیز میاں جب اپنے ھارمونیم پرگھٹنوں کے بل کھڑا ھو کر اوپر سے دباتا ھے تو ساری "چینجز سیو "ھو جاتی ھیں ! بخاری اور مسلم دونوں انس بن مالکؓ اور جناب مالکؓ بن صعصعہ کے حوالے سے تکرار کے ساتھ روایت کرتے ھیں کہ"انا فی البیت " انا فی الحطیم " اللہ اور رسولﷺکے اقوال کے بعد یہ معاملہ طے ھو جانا چاھئے تھا،،اس میں شک قران میں شک ھے اور ایونٹ کی جگہ تبدیل کرنا قرآن میں تبدیلی کرنا ھے،، مگر واعظ حضرات بر سرِ منبر بیان کرتے اور عزیز میاں اچھل اچھل کے گاتا ھے،خوابِ راحت میں تھے امِۜ ھانی کے گھر،، یہ امِ ھانی کون ھیں؟ جن کے گھر جناب نبی کریم ﷺ اپنی چھوٹی چھوٹی بچیاں اکیلی چھوڑ کر رات کو خوابِ راحت کے مزے لے رھے تھے؟؟ یہ جناب ابو طالب کی دختر نیک اختر ھیں،اور جناب حیدر کرار حضرت علیؓ کی ھمشیرہ ھیں جن کا رشتہ نبی کریم نے چچا سے مانگا تھا،مگر چچا نے ٹکا سا جواب دے دیا ،، اور بیٹی کا رشتہ طائف کے سردار اور اپنے ماموں زاد ھبیرہ بن ابی وھب کو دے دیا، جب نبی کریمﷺ نے گلہ کیا تو چچا نے انتہائی توھین آمیز جواب دیا" بھتیجے ان لوگوں سے تو ھماری قرابتیں پہلے سے ھوتی آئی ھیں،، اور اشراف کا میل تو اشراف کے ساتھ ھی ھوتا ھے اور تُو تو ایک محتاج شخص ھے" (تاریخِ طبری-الاصابہ-طبقاتِ سعد ) تو جناب اس ھبیرہ کو پتہ تھا کہ نبی کریمﷺ نے پہلے ام ھانیؓ کا رشتہ مانگا تھا اور یہ کہ آپﷺ ام ھانیؓ کے امیدوار تھے، جذبہ رقابت کے تابع اس نے کبھی نبی کریمﷺ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات نہیں رکھے، بلکہ ھمیشہ آپ کا جانی دشمن رھا،، اعلانِ نبوت کے بعد نہ صرف وہ مسلمان نہ ھوا بلکہ حضور سے عداوت میں بھی سب سے آگے رھا،، فتح مکہ پر ام ھانؓی تو مسلمان ھو گئیں مگر یہ خبیث شخص بھاگ کر نجران اور پھر شام چلا گیا اور عیسائی ھو کر مرا ! ایک دشمنِ جان کے گھر رات تیسرے پہر اپنی بچیاں اکیلی چھوڑ کر ایک نا محرم عورت کے ساتھ جناب رسالت مآبﷺ کیا کر رھے تھے؟ یہ جواب ان واعظین کے ذمے ھے! اب جو مولوی صاحب عقل ھیں اور جانتے ھیں کہ قران نے مسجدِ حرام کا ذکر کیا ھے،وہ پھر فرشتوں کے ذریعے ایک ٹارگیٹیڈ آپریشن کرواتے ھیں،جس میں فرشتے ام ھانی کے گھر کی چھت پھاڑ کر حضورﷺ کو اٹھا کر حرم میں اور پھر حطیم میں لاتے ھیں،،دروازے سے فرشتے نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ان مولویوں سے ھی تعویذ لے کر ھبیرہ نے دروازے کی چوکھٹ میں دبا کر حصار قائم کیا ھوا تھا،لہٰذا فرشتوں کو مجبوراً رینجرز کی طرح چھت پھاڑ کر اندر جانا پڑا،، روایت کہتی ھے کہ ام ھانیؓ نے فرمایا کہ ھم نے نبیﷺ کے پیچھے عشاء اپنے گھر میں پڑھی،،،نوٹ فرمایئے ابھی نماز فرض بھی نہیں ھوئی اور ام ھانیؓ نے مسلمان نہ ھونے کے باوجود جماعت کے ساتھ پڑھ لی ؟ اگر ام ھانی مسلمان ھوتی تو قران کے اس حکم کے بعد کہ لا ھنۜ حل لھم،(الممتحنہ) کہ مسلمان عورتیں کفار کے لئے حلال نہیں ھیں،،ھجرت کر کےمدینہ آجاتیں،، مگر وہ اپنے شوھر کے گھر بستی رھی تا آنکہ مکہ فتح ھوا اور شوھر بھاگ کر شام چلا گیا ،، مگر ھمارے راویوں کے صدقے ھر بار نفل ام ھانیؓ کے گھر ھی پڑھواتے ھیں،،معراج کی رات عشاء بھی ام ھانی کے ساتھ،، واپس آ کر فجر بھی ام ھانی کے ساتھ،، رات بھر کی بچیاں اکیلی چھوڑی ھوئی تھیں،،گھر جانے کی بجائے ام ھانی کے گھر ؟ پھر فتح مکہ کے نفل بھی ام ھانی کے گھر،، یہ ام ھانی کا گھر تھا یا اللہ کا گھر؟؟ اللہ پاک بخوبی جانتا تھا کہ فتح مکہ پہ ھبیرہ بھاگ نکلے گا اور ام ھانی کے مسلمان ھو کر اکیلے رہ جانے پر نبئ کریم ﷺ ان کی زبوں حالی کو دیکھتے ھوئے شادی کی پیش کش کر سکتے ھیں چنانچہ اللہ پاک نے وہ آیات نازل فرما دیں جن میں کہا گیا کہ ھم نے آپ کا اپنی چچا زاد، پھوپھی زاد عورتوں سے نکاح جائز قرار دیا ھے مگر صرف ان کے ساتھ کہ جنہوں نے آپﷺ کے ساتھ ھجرت کی ھے ، یوں حضرت ام ھانیؓ کے ساتھ رشتے کا امکان ختم ھو گیا ،لہذا بعد میں جب ام ھانی سے کسی نے پوچھا کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو رشتے کی پیش کش کی تھی تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسا کیسے کر سکتے تھے جبکہ اللہ آپ ﷺ کو ھجرت والیوں کے ساتھ نکاح کا پابند کر چکا تھا اور میں طلقاء میں سے تھی ،،،، (الاحزاب 50 )

No comments:

Post a Comment