Wednesday, February 10, 2016

چہرے کا پردہ فرض یا مستحب !

اللہ پاک نے جو بھی احکامات دیئے ھیں وہ امر کے صیغے میں ھی دیئے ھیں مگر ان میں سے کچھ فرض ھیں تو کچھ مستحب ھیں ،، سورہ بقرہ میں حکم دیا ھے کہ " وقولوا للناس حسناً و اقیموا الصلوۃ " اور لوگوں کے ساتھ احسن طریقے سے بات کیا کرو اور نماز قائم کرو ،، یہاں صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں غیر مسلموں کے ساتھ بھی بہترین طریقے سے گفتگو کرنے کا حکم دیا ھے کیونکہ تم اللہ کی نمائندگی کرتے ھو لہذا اچھی گفتگو اچھا تأثر پیدا کرتی ھے جس سے انسان آپ سے مانوس ھوتا ،پھر آپ کا دوست بنتا اور پھر آپ کے خیالات کو اپناتا ھے ،، مگر سب سے زیادہ بدتمیزی کے ساتھ گفتگو ھی مذھبی طبقہ کرتا ھے ،، ملحدین کے پیج پر چلے جاؤ تو ان کی سچی بات پر بھی ان کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتے ھیں ،، اپنے مسلمان بھائی سے ذرا سا بھی اختلاف ھو جائے تو اسے بھی ماں بہن کی سناتے ،کافر ،مرتد اور ملحد قرار دیتے ھیں گویا اس بارے میں کوئی حکم شریعت نے دیا ھی نہیں ،کتاب اللہ وراء ظھورھم کأنھم لا یعلمون ،، اللہ کی کتاب انہوں نے پشت پیچھے پھینک رکھی ھے جیسے یہ اسے جانتے تک نہیں ، کتاب اللہ کے وہ احکامات جو ان کی قبائیلی زندگی کو سوٹ کرتے ھیں اور ان کی مردانہ فطرت کی تسکین کرتے ھیں ،، وہ مستحب بھی ھوں تو یہ ان کو فرض بنائے بغیر نہیں رھتے مگر جو ان کے اپنے اختیار کردہ تصور کے خلاف ھو وہ فرض بھی ھو تو پسِ پشت چلا جاتا ھے ،، دین کے بھی ھم نے ٹکڑے کر رکھے ھیں اور " کل حزبٍ بما لدیھم فرحون" کا نقشہ کھینچ رکھا ھے کہ جو ٹکڑا جس کے پاس ھے وھی پورا اسلام اور پوری شریعت ھے ،،،،
جو لوگ پردے کی فرضیت کے قائل نہیں وہ بھی پردے کے مخالف نہیں ، مگر یہ فرضیت سے انکار کو بہانہ بنا کر ان کی مستورات پر بھی زبانین دراز کرتے ھیں ، اور خود کو اسلام کا خادم بھی کہتے ھیں ،، اخلاق کے اسی مظاھرے کی وجہ سے پڑھا لکھا نوجوان ان سے متنفر ھے ،وہ چونکہ انہی کو دین کا نمائندہ سمجھتا ھے لہذا دین سے بھی دور ھوتا جا رھا ھے ،، آپ کہہ سکتے ھیں کہ پردہ تو پردہ ھے کوئی اس کو مستحب سمجھ کر کرے یا فرض سمجھ کر کرے فرق کیا پڑتا ھے ،، عرض کروں گا کہ اس میں زمیں آسمان کا فرق ھے، جس طرح نماز میں فرض اور سنن ونوافل ھیں ،وضو میں فرض و سنن ھیں ، اسی طرح دین کے ھر معاملے میں ایک اعلی تر صورت ھے جو لازمی ھے اور ایک ادنی ھے جو آپ کی مرضی پر ھے کریں گے تو اجر پا لیں گے نہیں کریں گے تو نکیر کوئی نہیں کر سکتا اور جبر کوئی نہیں کر سکتا ،، پردہ مستحب ھے جو خاتون بڑی چادر سے اپنے آپ کو لپٹ لتی ھے اگرچہ اس کا چہرہ اور ھاتھ پاؤں نظرآتے ھوں تو وہ شریعت کا حکم پورا کر دیتی ھے ، اگر اس کی مثال دیکھنی ھو تو ایرانی خواتین کو دیکھ لیں چاھے حج پر یا یونیورسٹی اور اسپتال میں یا سڑک پر وہ جس طرح اپنے آپ کو چادر میں لپیٹے ھوتی ھے ، اس کا نام ھے شرعی پردہ یا فرض پردہ ،چہرے کا پردہ مستحب ھے ،،،جس کے دلائل میں ان شاء اللہ اگلی قسط سے شروع کرونگا ،،
ولا ینبغی للمرأۃ المحرمۃ ان تنتقب، فان ارادت ان تغطی وجھھا فلتسدل الثوب سدلاً من فوق الخمار و ھو قول ابی حنیفہ والعامۃ من فقہائنا ،،
جو لوگ چہرے کے پردے کو فرض سمجھتے ھیں ان کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ھے ، وہ اپنے آپ کو ساتویں آسمان پر سمجھتی ھیں اور جس نے چہرہ ننگا رکھا ھوتا ھے اس کو پاتال میں سمجھتی ھیں ،کئ لوگ ننگے چہرے مگر جلباب میں لپٹی عورت کی تصویر لگا کر نیچے کیپشن دیتے ھیں کہ " یہ پردہ نہیں ھے " یہ کام زیادہ تر خواتین کرتی ھیں ،،، یہ ھوتا ھے پردے کو فرض سمجھنے کا اثر ،، جبکہ مستحب میں کرنے اور نہ کرنے والا کسی کو نکیر نہیں کر سکتا ،،یہ پسندیدہ ھے ،، جب شریعت چہرے کے پردے کو " ان شاءت " اگر وہ کرنا چاھے تو کر لے ،،کہہ کر عورت کی مرضی پر چھوڑتی ھے تو یہ دین کا کام کرنے والے آئستہ آئستہ شارع بن کر ان پر تھوپنا کیوں شروع ھو جاتے ھیں ،، معاشرتی زندگی پر اس سوچ کا دوسرا اور عملی فرق یہ پڑتا ھے کہ ،ایک بچی والدین کے گھر پردہ کرتی ھے ،، اگر والدین کی اطاعت کرتی ھے تو بہت اچھی بات ھے اللہ پاک سے دھرا اجر پائے گی ،، لیکن جب اس کی شادی ھو جاتی ھے اور اس کا سسرال یا شوھر کہتا ھے کہ تم بس چادر لے لیا کرو چہرہ مت ڈھانکا کرو تو اسے چہرہ ننگا کر لینے میں کوئی حرج نہیں وھاں شوھر کی اطاعت کرے اور آرام سے گھر چلائے ،، مگر متشددین یہ سبق دیتے ھیں کہ طلاق لے لینا مگر پردہ مت اتارنا ،، یوں گھر اجڑ جاتے ھیں ،، چہرے کا پردہ اور ائمہ اربعہ ،،، 1- امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی ،، قال الامام محمد بن الحسن فی "" الموطا " و قال ابوجعفر الطحاوی فی " شرح المعانی الآثار-2 /392-393 ابیح للناس ان ینظروا الی ما لیس بمحرۜم علیھم من النساء الی وجوھھن و اکفھن ، و حرم ذالک علیھم من ازواج النبیﷺ و ھو قول ابی حنیفہ و ابی یوسف و محمد رحمھم اللہ ،، امام محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ھیں کہ عورت کو احرام کی حالت میں اپنا چہرہ نقاب میں نہیں چھپانا چاھئے اگر اس نے چہرہ چھپانا ھے تو دوپٹے کے اوپر سے کپرا لٹکا لے ، اور یہی قول ابوحنیفہ اور ھمارے دیگر فقہاء کا ھے ( الموطا محمد ) امام طحاوی شرح معانی الآثار مین لکھتے ھیں کہ لوگوں پر عام عورتوں کے چہرے اور ھاتھ دیکھنا مباح ھے اور ازواج النبی ﷺ کا چہرہ اور ھاتھ دیکھنا حرام ھے ،، یہی قول ابی حنیفہ، اور ابی یوسف اور محمد رحمھم اللہ کا ھے ،، 2،، امام مالک روی صاحبہ عبدالرحمان بن قاسم المصری فی المدونہ (2/221) نحو قول امام محمد فی المحرمہ اذا ارادت ان تسدل علی وجھہا، وزاد فی البیان فقال ، " فان کانت لا ترید ستراً فلا تسدل " و نقلہ ابن عبدالبر فی " التمھید " (15/111) وارتضاہ وقال بعد ان ذکر تفسیر ابن عباس و ابن عمر لآیۃ" الا ما ظھر منھا " بالوجہ والکفین "
ابوداؤد حضرت عائشہؓ سے روایت لائے ھیں کہ ،،
و علی قول ابن عباس وابن عمر الفقھاء فی ھٰذا الباب( قال ) فھذا ما جاء فی المرآۃ و حکمھا فی الاستتار فی صلاتھا و غیر صلاتھا ،، یعنی ما ظھر منھا کی تفسیر مین تمام فقہا ان دونوں کی رائے پر ھیں کہ نماز یا نماز کے باھر عورت پر چہرہ اور ھاتھ ڈھانپنا واجب نہیں ۔( الموطا 935/2) موطا میں یحی کی روایت ھے کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ کیا عورت غیر محرم کے ساتھ کھانا کھا سکتی ھے یا اپنے غلام کے ساتھ ؟؟ تو امام مالک نے جواب میں فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ شوھر کے ساتھ دوسرے جاننے والے مردوں کے ساتھ کھانا کھا سکتی ھے ،، اس سے استدلال کرتے ھوئے فقہ مالکی کے فقیہہ الباجی " المتقی شرح الموطا" میں کہتے ھیں کہ اس سے یہی موکد ھوتا ھے کہ عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھا جا سکتا ھے کیونکہ یہی کھانے کے دوران نظر آتے ھیں ( المتقی شرح الموطا 252/7 ) 3- امام شافعی ،،، امام شافعی اپنی کتاب " الام " میں لکھتے ھیں کہ عورت کو احرام میں چہرہ نہیں ڈھانپنا چاھئے ، اگر چہرہ چھپانا چاھتی ھے تو کپڑا چہرے کے ساتھ نہ لگنے دے ،، امام بغوی شرح میں لکھتے ھیں کہ کسی آزاد عورت کے بدن کو دیکھنا کسی مرد کے حق میں جائز نہیں وہ اس کی کسی چیز پر نظر نہیں ڈال سکتا سوائے اس کے چہرے اور ھاتھوں کی ہتھیلیوں کے گِٹوں تک،، اور اگر اسے اپنے اوپر فتنے کا خدشہ ھے تو مرد پر واجب ھے کہ اپنی نظر کو نیچا رکھے ( نہ کہ عورت کو منہ چھپانے پر مجبور کرے کہ میرا ایمان گیا ) 4- امام احمد بن حنبل امام احمد کے بیٹے صالح مسائل میں لکھتے ھیں کہ ،،، احرام والی عورت نقاب نہ ڈالے البتہ کپڑا تھوڑا سے لٹکا دے تو کوئی حرج نہیں ،، کوئی حرج نہیں کا جملہ بتا رھا ھے کہ عورت کی مرضی پر معاملے کو چھوڑ دیا گیا ھے ،، اپنی تبصرے میں لکھتے ھیں کہ اگر چہرہ اور ھاتھ ستر ھوتے تو ان کو چھپانے سے منع نہ کیا جاتا کیونکہ خرید و فروخت اور لینے دینے کے لئے چہرے اور ھاتھوں کا کھلا ھونا فطری بات ھے ،، اس پوری بحث میں چاروں فقہاء اس پر متفق ھیں کہ سدل یعنی چہرے پر پردہ لٹکانا عورت کی اپنی مرضی پر ھے نہ کہ اس پر واجب ھے ،، حضرت عائشہ صدیقہؓ کا قول بہیقی نے نقل کیا ھے کہ " المحرمہ تلبس من الثیاب ما شاءت الا ثوباً مسہ ورس او زعفران، ولا تتبرقع ،ولا تلثم ،، وتسدل الثوب علی وجھہا " ان شاءت" احرام والی عورت ھر قسم کا لباس پہن سکتی ھے سوائے اس کے کہ جس کو ورسیا زعفران وغیرہ لگی ھو اور نہ ھی برقع کرے اور نہ ھی چہرے پہ ڈھاٹا باندھے " البتہ اگر چاھے تو اوپر سے کپڑا لٹکا لے ،، اس پورے قول میں لفظ " ان شاءت " اھم ھے کہ عورت اگر چاھے ،نہ چاھے تو کوئی جبر نہیں ،
اس کے بعد ابن مفلح کہتے ھیں کہ ھمارا اور شوافع نیز دیگر فقہاء( مالکیہ و احناف ) کا اس پر اتفاق ھے کہ " ان النظر الی الاجنبیہ جائز من غیر شھوۃ ولا خلوہ ، فلا ینبغی الانکار ،، کہ اجنبی عورت کے چہرے کو بلا شہوت اور بلا خلوت دیکھنا جائز ھے اور عورت کو نکیر نہیں کی جائے گی ،، یعنی چہرہ کھولنے پر اس کو ملامت نہیں کی جائے گی ،،
و عن عائشۃ عن اسمآء بنت ابی بکر دخلت علٰی رسول اللّٰہ ﷺوعلیہا ثیاب رقاق فاعرض عنھا وقال یا اسماء انّ المراۃ اذا بلغت المحیض لن یصلح ان یریٰ منھا الّا ھذا و ھذا و اشار الی وجھہ وکفّیہ ‘‘ (ابو داؤد) ام المومنین عائشہؓ فرماتی ھیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ پتلے کپڑے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ نے ان کی طرف سے منہ موڑ لیا اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ھو جائے تو اس کے لئے ٹھیک نہیں کہ اس کے چہرے کی ٹکیہ اورہتھیلیوں کے سوا کچھ اور کسی مرد کو نظر آئے ،، اور آپ نے ھاتھ کانوں کے آگے سے لے کر چہرے کی ٹکیہ کے دونوں اطراف اپنے ھاتھ رکھ کر اور پھر ھاتھوں کی گٹھیا کو پکڑ کر دکھایا " الا ھذا و ھذٰا " بس یہی پردہ ھے ،، جو عورت پر واجب ھے ،پھر حج پر احرام کی حالت مین عملاً کرا کر بھی دکھا دیا ،، ابن المفلح امام احمد کی فقہ کے فقیہہ ھیں ان کو امام احمد فرمایا کرتے تھے کہ تم ابن مفلح نہیں ھو بلکہ خود مفلح ھو ، اور ابن قیم ان کے بارے میں فرماتے ھیں کہ اس آسمان کے گنبد کے نیچے کوئی شخص امام احمد کی فقہ کا ابن مفلح سے بڑھ کر واقف نہیں ،، ان ابن مفلح سے سوال کیا گیا کہ " رستے میں چہرہ کھلا رکھ کر چلنے والی عورتوں کو ملامت کی جا سکتی ھے اور چہرہ کھولنے سے منع کیا جا سکتا ھے ؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ ،، قاضی عیاض نے جریرؓ سے جو حدیث نقل کی ھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اگر عورت کے چہرے پر اچانک نظر پڑ جائے تو بندہ کیا کرے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ بس اپنی نظر ھٹا لے ( مسلم ) اس سے علماء نے استدلال کیا ھے کہ " فی ھذا الحدیث حجۃۤ علی انہ لا یجب علی المراۃ ان تستر وجہھا فی طریقھا ، و انما ذالک سنۃ مستحبہ لھا ،، ویجب علی الرجل غض البصر عنھا فی جمیع الاحوال ،،، الا لغرضٍ شرعی ) اس حدیث مین حجت تمام ھو گئ ھے کہ عورت پر رستہ چلتے چہرہ چھپانا واجب نہیں ھے بلکہ مستحب سنت کی قسم سے ھے ،، مگر مرد پر نظر پھیر لینا ھر حال میں واجب کیا گیا ھے ،، سوائے اس کے کہ شعرعی عذر اس عورت کو دیکھنے کا موجود ھو یعنی شادی کے لئے دیکھنا یا ڈاکٹر کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ ( مگر مردوں نے نہایت چالاکی سے اپنا فرض بھی عورت پر تھوپ دیا ھے تا کہ خود جی بھر کر اس کا تھارولی اسکین فرما سکیں ) امام نووی نے مسلم کی شرح میں اس جواب کو کوٹ کرنے کے بعد اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا یعنی اس رائے سے اتفاق کیا ھے ،،
(یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ انٰہُ وَلَکِنْ اِذا دُعِیْتُمْ فَادْ خُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ اِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَےَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْءَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِنَّ وَمَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْآ اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا اِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمًا )۳۳:۵۳:
عض لوگوں کے نزدیک عورت سر سے لے کر پاؤں تک پوری ستر ہے لہذا اجنبی مرد کے سامنے، اس کے لیے ہاتھوں اور چہرے سمیت مکمل پردہ کرنا لازم ہے ۔ یعنی عورت کے لیے نقاب فرض ہے۔ اگرچہ یہ ایک اسلامی رائے ہے ، تاہم یہ کمزور ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عورت سر سے لے کر پاؤں تک ستر ہے سوائے ہاتھوں اور چہرے کے۔ یعنی اجتماعی زندگی میں اس کے لیے ہاتھوں اور چہرے کا پردہ کرنا فرض نہیں بلکہ مباح ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے گروہ کے دلائل پیش کیے جائیں ، ان پر بحث ہو اور بالآخر صحیح رائے کے دلائل کو ظاہر کیا جائے۔ نقاب کی فرضیت کے قائلین سورۃ احزاب کی دو آیات سے استدلال کرتے ہیں، پہلی آیت نمبر ۳۳: (اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو) ان کا کہنا ہے کہ یہاں عورتوں کو گھر میں رہنے کا حکم ان کے مکمل پردہ کی دلیل ہے۔ دوسری آیت نمبر ۵۳: ( اور جب تم ان سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو) ان کا کہنا ہے کہ یہاں مردوں کو عورتوں سے، ضرورت کے تحت، پردہ کے پیچھے سے کوئی چیز طلب کرنے کا حکم ہوا ہے۔ لہذا ان دونوں آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا چہرہ بھی اس کے باقی جسم کی طرح ستر ہے اور اس کا پردہ لازم ہے۔ ان آیات سے یہ استدلال غلط ہے ، اس لیے کہ یہ آیات عام نہیں بلکہ خاص ہیں ۔ یہ ان آیات کے سیاق سے واضح ہے: ( یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍمِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقِیْنَ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذی فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًامَّعْرُوْفًا ، وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھَلَیَّۃِ الْاُوْلٰی وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا )۳۳۔۳۲:۳۳ (اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدہ کے مطابق کلام کرو ، اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو، اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ ہر قسم کی گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے)
جہاں تک دوسری آیت کی بات ہے تو جان لینا چاہئے کہ اس کا سببِ نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو حضرت عمرؓ کا ہاتھ حضرت عائشہؓ کے ہاتھ سے لگ گیا ، جس پر حضرت عمرؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ رسول اللہ ﷺکی بیویوں کا غیر مردوں سے پردہ ہونا چاہئے اور اس موقع پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ اس سے ہمارے موقف کو مزید تقویت ملتی ہے۔ نیز آیت میں مستعمل ضمیر’ھُنَّ ‘ خاص امہات الموممنین سے منضبط ہے ۔ علاوہ ازیں آیت میں یہ علت موجود ہے وَمَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ(اور نہ تمہیں جائز ہے کہ رسول اللہ کو تکلیف دو)۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ا مہات الموممنین کے حجاب (پردہ) کی وجہ رسول اللہ کی تکلیف ہے یعنی جب صحابہ کرام بغیر پردہ کے ازواج مطہرات سے مخاطب ہوتے ہیں تو اس بات سے حضور ﷺ کو تکلیف پہنچتی ہے، تو غالبًا ہر جہت سے یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ یہ آیات خاص ہیں لہذا ان کو عام عورتوں پر استعمال ہرگز نہیں کیا جائیگا۔ تو حقیقت میں یہ آیات قائلینِ نقاب کے حق میں نہیں بلکہ ان کے موقف کے خلاف دلائل ہیں!
(اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو،وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو ، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بیانِ حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا ،جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردہ کے پیچھے سے طلب کرو تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے،نہ تمہیں جائزہے کہ رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو ،یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے) ان دونوں آیات کا عام مسلمان عورتوں پر اطلاق نہیں ہوسکتا بلکہ یہ امہات المومنین کے لیے خاص ہیں۔ پہلی آیت میں یہ بات آغاز میں ہی ظاہر ہے جب اللہ نے ان سے مخاطب ہوکر کہا یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍمِّنَ النِّسَآء۔ یعنی اے بنی کی بیویو تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو! اس قول سے زیادہ اور واضح کیا ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور عام عورتوں کے مابین فرق کیا ہے۔ اس بات کی مزید تصدیق آیت کے اس آخری حصہ سے ہوتی ہے اِنَّمَا یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا (اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ ہر قسم کی گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کر دے) ظاہر ہے کہ یہاں اَھْلَ الْبَیْتِ سے مراد سب عورتیں نہیں بلکہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات ہیں۔ نیز اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ ان کو گندگی سے پاک کرنے کی وجہ اور انھیں اس بات کی یادہانی کرا رہا ہے کہ ان کے گھر میں وحی نازل ہوتی ہے، تو بھلا یہ دوسری عورتوں کے مانند کیسے ہوسکتی ہیں! ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( وَاِذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِی بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ )۳۴:۳۳ (اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو)
یہ جان لینا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں عورتیں عام طور پر باہر، بازار میں اور تجارت وغیرہ کرتے ہوئے اپنے چہرے اور ہاتھ ظاہر کیا کرتی تھیں اور اس پر رسول اللہ ﷺ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ ایسی کئی روایات صحیح احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
اس کے علاوہ یہ حضرات سنن ابو داؤد کی اس حدیث کو بھی بحیثیتِ دلیل استعمال کرتے ہیں جس میں ہے کہ حضرت الفضلؓ ابن عباس رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار تھے کہ بنی خاتم سے ایک عورت حکم دریافت کرنے کے لیے آپؐ کے پاس آئی، تو حضرت فضلؓ اس عورت کی طرف دیکھنے لگ گئے اور وہ عورت ان کی طرف۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت کا چہرہ دوسری طرف کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں پر نقاب فرض ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ حضرت الفضلؓ کا چہرہ دوسری طرف کیوں کرتے؟غالبًا یہ حدیث نقاب کی فرضیت پر نہیں بلکہ اس کے مباح ہونے پر دلالت کررہی ہے! یہ اس لیے کہ حکم پوچھتے وقت وہ عورت بغیر نقاب کے تھی اور رسول اللہ ﷺ خود اس کو دیکھ رہے تھے۔ حضور ﷺ نے اس عورت کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنا چہرہ ڈھانپ لے ، اگر یہ فرض ہوتا تو یہ نا ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس معاملہ میں خاموش رہتے ، کیونکہ یہ بات ایک نبی کی عصمت کے خلاف ہے۔ اس کے بجائے آپؐ نے حضرت فضلؓ کا چہرہ دوسری جانب کردیا او ر بعد میں جب اس کی وجہ حضرت علیؓ نے پوچھی تو آپؐ نے فرمایا: ’’میں نے ایک نوجوان عورت اور ایک نوجوان مرد کو ایسی حالت میں پایا کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں شیطان انہیں متاثر نہ کرے۔‘‘ یعنی حضور ﷺ نے اس وجہ سے حضرت فضلؓ کا چہرہ دوسری طرف کیا کیونکہ ان کی نظر میں حسرت و تمنّا ظاہر ہورہی تھی ، جوکہ حرام ہے، اور نہ کہ محض اس وجہ سے کہ وہ عورت کی طرف دیکھ رہے تھے! نبئ کریم ﷺ کو جس عورت نے اپنا آپ بطور ہبہ پیش کیا تھا وہ مجلس میں آئی تھی اور نبئ کریم ﷺ سیمت تمام مجمعے نے اس کو دیکھا تھا اور اس کا چہرہ کھلا تھا ،، حضرت اسماءﷺ نبئ کریم ﷺ سے چہرے کا پردہ نہیں کرتی تھیں اور یہ رسول اللہ ﷺ کی اس تصریح کے مطابق تھا کہ اے اسماء عورت جب حدِ بلوغت کو پہنچے تو اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آنی چاہیئے،، 1-اسی طرح یہ حضرات جو حدیث بیان کرتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو کہا کہ ابن ام مکتوم نابینا ھے تم دونوں نابینا تو نہیں ھو ،، یہ بھی ضعیف حدیث ھے، ( الالبانی ) 2- حضرت فاطمہ سے پوچھا گیا کہ بہترین عورت کون ھے تو آپؓ نے جواب دیا کہ جو مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ مرد ان کو دیکھیں ، یہ بھی ضعیف حدیث ھے ( الالبانی 6202) 3- جو عورت بھی اپنے شوھر کے گھر کے علاوہ کہیں دوپٹہ اتارتی ھے تو اپنے اور اپنے رب کے درمیان سے ستر ھٹا دیتی ھے ( ضعیفہ الالبانی 6216) 4- مرد کا مرد سے ستر اور عورت کا عورت سے ستر اسی طرح ھے جس طرح عورت کا مرد سے ستر ( ضعیفہ 3923) 5- عورتیں بے وقوف ھیں سوائے ان کے کہ جو اپنے قیم کی اطاعت کرتی ھیں ( ضعیفہ 6051) 6- مرد تب ھلاک ھوتا ھے جب وہ عورت کی بات مانتا ھے ( ضعیفہ-436 ) 7- دنیا اور عورت سے بچو ، یہ دونوں ابلیس کے پھندے ھیں اور متقیوں کے لئے عورت سے بڑھ کر کوئی پھندہ نہیں ( موضوع ،، الضعیفہ 2065) 8- پہلی نظر خطا ھے ،دوسری ارادہ ھے اور تیسری ھلاک کرنے والی ھے ، مرد کا عورت کے محاسن کو دیکھنا ابلیس کے زھریلے تیروں میں سے ھے ( موضوع ،، ضعیفہ 5970) 9- رسول اللہ ﷺ نے امرد جوان جس کی ابھی مونچھیں نہ پھوٹی ھوں اس کی طرف غور سے دیکھنا منع کیا ھے ،، موضوع ( الضعیفہ- 5969) وہ دلائل جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا چہرا اور اس کے ہاتھ ستر میں شامل نہیں ملاحظہ ہوں:
دوسرا یہ کہ وسیلہ جس حرام فعل کا باعث بنا ، اس کی حرمت کے بارے میں نص موجود ہو ، نہ کہ عقل نے اسے حرام قرار دیا ہو۔ یہاںیہ دونوں شرائط پوری نہیں ہورہیں کیونکہ نہ تو چہرے کی بے نقابی یقینی طور پر حرام( فتنے )کا سبب بنتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شرعی نص موجود ہے جو فتنے کے خوف کو حرام قرار دے! یہ اس لیے کہ وہ لوگ فتنے کے خوف کو فرضیتِ نقاب کی وجہ بتاتے ہیں نہ کہ بذاتِ خود فتنے کے وقوع کو! یہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ کسی اجنبی عورت/مرد کی طرف شہوانی نظروں سے دیکھنا حرام ہے، اس شخص کے لیے جو ایسا کرے جبکہ جس کی طرف دیکھا جا رہا ہے، اس عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا لازم نہیں ٹھہرے گا بلکہ یہ مباح ہی رہے گا ، جیسا کہ نصوص سے ثابت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ نے مذکورہ حدیث شریف میں حضرت الفضلؓ کا چہرا دوسری سمت میں کردیا مگر جس عورت کی طرف وہ دیکھ رہے تھے، اس سے نقاب (چہرے کا پردہ) کا مطالبہ نہیں فرمایا۔
اس کی ایک دلیل پہلی مذکورہ آیت ہے (۳۱:۲۴) جس میں اللہ مسلمان عورتوں کو یہ حکم دے رہا ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ’اِلَّامَاظَہَرَ‘ یعنی سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرما یا ہے کہ اس سے مراد ہاتھ اور چہرا ہے۔ (ترمذی) اور عطا کی روایت میں حضرت عائشہ کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ (تفسیر مظہری) اگر واقعتا پوری عورت ستر ہوتی تو اس آیتِ مبارکہ میں رخصت دینے کا کیا مقصد ہے ؟! اسی لیے امام قرطبیؒ ، امام طبریؒ اور امام زمخشریؒ نے اپنی اپنی تفسیر میں اس آیت سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیا ہے۔ نیز حدیث شریف میں ہے: ’’ و عن عائشۃ عن اسمآء بنت ابی بکر دخلت علٰی رسول اللّٰہ ﷺوعلیہا ثیاب رقاق فاعرض عنھا وقال یا اسماء انّ المراۃ اذا بلغت المحیض لن یصلح ان یریٰ منھا الّا ھذا و ھذا و اشار الی وجھہ وکفّیہ ‘‘ (ابو داؤد) (حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک دن اسماء بنت ابوبکرؓ رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں اس حالت میں آئیں کہ ان کے بدن پر باریک کپڑے تھے ، آپؐ نے یہ دیکھ کر ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اے اسماء! عورت جب ایامِ حیض کو پہنچ جائے ( یعنی جب وہ بالغ ہوجائے) تو یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ اس کے جسم کا کوئی عضو دیکھا جائے علاوہ اس کے اور اس کے ، یہ کہہ کر آپؐ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔ ) دیگر احادیث سمیت، اس میں بھی رسول اللہ ﷺ نے عورت کے ہاتھوں اور اس کے چہرے کو ستر میں شامل نہیں فرمایا۔ جہاں تک ان فقہا کا تعلق ہے جنھوں نے فتنے کے خوف کی بنا پر نقاب کو فرض ٹھہرایا ہے تو یہ کئی وجوہ سے بے بنیاد ہے ! : ۱) پہلی یہ کہ فتنے کے خوف کی وجہ سے عورت کے نقاب کی فرضیت نہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی اجماع الصّحابہ یا قیاس سے۔ اور چونکہ شارع کا خطاب صرف انہی سے سمجھا جا سکتا ہے، تو اس رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اسے حکمِ شرعی مانا جائگا۔ بلکہ اس کے برعکس شرعی نصوص سے مطلقًا ، بغیر کسی قید یا تخصیص کے، چہرے کی بے نقابی کی اباحت ثابت ہے! لہذا فرضیتِ نقاب والی رائے ایک ایسی رائے ہے جو اللہ کی جائز کی ہوئی بات کو حرام قرار دے رہی ہے! اور اس بات کو ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا!۲) دوسری یہ کہ یہاں’ فتنے کے خوف ‘کو علت بنایا گیا ہے۔ جبکہ علت ، خواہ وہ صراحتًا ہو یا دلالتًا ، استنباطًا ہو یا قیاسًا، یہاں نہیں پائی گئی۔ دوسرے لفظوں میں یہ علت کسی شرعی نص میں موجود نہیں یعنی یہ شرعی علت نہیں ہے ۔ غالبًا یہ ایک عقلی علت ہے جبکہ نصوص سے حکم اخذ کرتے وقت صرف علتِ شرعی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اس معاملے میں علتِ عقلی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ! ۳) تیسری یہ کہ شرعی قائدے الوسیلہ الی الحرام محرمہ (حرام کا وسیلہ بھی حرام ہے) کا اطلاق اس معاملہ پر نہیں ہو سکتا ۔ وہ اس لیے کہ اس قاعدے کی دو شرائط ہیں : ایک تو یہ کہ یہ فعل غالب گمان کے ساتھ حرام تک پہنچائے اور یقینی طور پر حرام کا سبب بنے یعنی اس کا نتیجہ ہر صورت میں حرام ہی نکلے اور اس امر سے تجاوز نہ ہوپائے۔ نیز اگر عورت مرد کے لئے فتنہ ھے اور مرد کے ایمان کو بچانے کے لئے عورت کا چہرہ چھپانا ضروری ھے تو خود مرد عورت کے لئے نو گنا زیادہ فتنہ ھے خود اس کو نقاب کیوں نہ پہنا دیا جائے ، کیا اللہ پاک کو عورتوں کے ایمان کی فکر نہیں ؟ یا عورت میں ایمان ھوتا ھی نہیں ؟ اللہ عادل ھے اور دونوں اللہ کی تخلیق ھیں اور دونوں معاشرے کا حصہ ھیں اور 80 فیصد دیہاتی آبادی میں عورت مرد سے زیادہ نہیں تو کم مشقت بھی نہیں کرتی ، ذرا ان عورتوں کا چہرہ ڈھک کر یا شٹل کاک برقع پہنا کر کھیتوں میں کام کروا کر دیکھئے ، افریقی مسلمان ممالک میں تو اور بری حالت ھے ،،
کچھ ریفرینسز انقلاب ڈاٹ نیٹ سے لئے گئے ھیں ،،
آیت جلباب سے چہرہ چھپانا ثابت ھی نہیں ھوتا ،، ابن عباسؓ کا جو قول نقل کیا جاتا ھے اور جس کو اکثر استعمال کیا جاتا ھے کہ اللہ نے عورتوں کو حکم دیا ھے کہ اگر وہ باھر جائیں تو اپنے چہرے چھپا کر جائیں صرف ایک آنکھ ننگی رکھنے کی اجازت ھے ،، یہ ضعیف قول ھے اور جس جگہ یہ ضعیف قول ھے اسی جگہ ( الدر المثور) میں ھی پایا جاتا ھے جس میں ابن جریر اور ابن مردویہ کی روایت میں بتایا گیا کہ ابن عباس نے فرمایا کہ یدنین علیھن من جلابیبھن کا مطلب ھے " و ادناء الجلبابِ ان تقنع و تشد علی جبینھا ، و قال الآخرون بل امرن ان یشددن جلابیبھن علی جباھھن،، یعنی ماتھے کو مضبوطی کے ساتھ چادر میں جکڑ لو، ھمارے یہاں یہ مقصد اسکارف اور پھر نیچے عبایہ جلباب کے طور پر کرتا ھے ،، جبکہ ایران میں وہ جلباب بالکل ایک آئیڈیل صورت اختیار کر لیتی ھے ،یہی مقصود شریعت ھے مذکورہ دلائل کی روشنی میں علماء کے چند اقوال مندرجہ ذیل ہیں: مذکورہ آیت (اِلَّامَاظَہَر)کے بارے میں حنفی مجتہد امام ابوبکر الجصاصؒ کہتے ہیں: ’’ ہمارے اصحاب (حنفیہ)کا قول ہے کہ اس سے چہرہ اور کفِ دست (ہاتھ)مراد ہیں، اس لیے کہ سرمہ چہرے کی زینت ہے اور مہندی نیز انگوٹھی ہتھیلی کی زینت ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے چہرے اور ہتھیلی کی زینت پر نظر ڈالنے کی اجازت دے دی ، تو یہ بات اس امر کی بھی مقتضی ہے کہ چہرے اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے کی بھی اباحت ہو۔ چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں عورت کے ستر میں شامل نہیں ہیں۔‘‘ (احکام القراٰن) امام الکاسانی، ؒ جن کا تعلق حنفی مسلک سے ہے، مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ اجنبی مرد کے لیے اجنبی عورت کے تمام جسم کو، ماسوا چہرے اور دونوں ہاتھوں کے، دیکھنا جائز نہیں ہے۔ (اس آیت میں) زینت سے مراداس کے مقامات زینت ہیں اور زینت کے ظاہری مقامات چہرہ اور دونوں ہاتھ ہیں۔ لہذا سرمہ چہرے کی اور انگوٹھی ہاتھ کی زینت ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ آزاد عورت کو بیع وشراء(خریدوفروخت) اور اشیاء لینے دینے کے لیے اس کی ضرورت ہے اور عام طور پر چہرہ اور دونوں ہاتھوں کے کھولے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ، لہذا اس کے لیے ان کو کھولنے کی اجازت ہے ، یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔‘‘ (بدائع الصّنائع) امام شوکانیؒ کہتے ہیں : ’’ پھر آزاد عورت کے ستر یعنی پرد ے کے بارے میں ….بعض فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے سوا، عورت کو باقی تمام جسم پردہ میں رکھنا چاہئے اور یہی جمہور فقہاء کا مسلک ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘ (نیل الاوطار) قاضی ثنااللہؒ کہتے ہیں: ’’ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ ، اور امام شافعیؒ اور امام احمد ؒ کے نزدیک چہرہ اور پہنچے تک دونوں ہاتھ حکمِ ستر سے مستثنیٰ ہیں۔ (تفسیرالمظھری) ابن رشد کہتے ہیں : ’’ فقہاء کی اکثریت اس بات پر ہیں کہ (عورت) کا پورا جسم ستر ہے ، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔‘‘(بدایۃ المجتھد) امام الجزیری ؒ ، جوکہ چاروں مسالک کے ماہر ہیں ، کہتے ہیں: ’’ اگر کوئی اجنبی مرد یا غیر مسلم عورت موجود ہو تو ہاتھوں اور چہرے کے سوا عورت کا تمام جسم ستر ہے۔ یہ دونوں اعضا ستر میں داخل نہیں ہیں۔‘‘ (کتاب الفقہ المذاھب علی الاربعہ ) شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کہتے ہیں: ’’پس خدا تعالیٰ نے ان اعضا کے کھولنے کی اجازت دی ہے جن سے شناخت ہوسکتی ہے یعنی منہ (چہرہ) اور اکثر جن اعضا سے کام کاج ہوتا ہے اور وہ دونوں ہاتھ ہیں اور ان کے سوا سب اعضا کا ستر واجب ہے۔‘‘ (حجۃ اللّٰہ البالغہ) علامہ تقی الدین النبھانی ؒ نے اپنی کتاب ’النظام الاجتماعی فی الاسلام‘ میں ایک مفصل بحث سے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت کے لیے نقاب فرض نہیں ہے۔
اگرچہ یہ بحث چند احکام کے بارے میں ہے تاہم یہ بہت اہم ہے کیونکہ ان بعض احکام سے معاشرے میں اسلامی طرزِ زندگی کا تعین ہوتا ہے اور خلافت میں معاشرتی زندگی کی نشاندہی بھی۔





No comments:

Post a Comment