سوال: آپ نے رسائل و مسائل حصہ دوم میں ’’نسخ قرآن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آیت رجم توریت کی ہے، قرآن کی نہیں۔‘‘ میں حیران ہوں کہ آپ نے ایک ایسی بات کا انکشاف کیا ہے جو صاف تصریحات کے خلاف ہے۔ سلف سے خلف تک تمام علمائے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت تو منسوخ ہے لیکن حکم ان کا باقی ہے:
والنسخ قد یکون فی التلاوۃ مع بقاء الحکم
(احکام القرآن للجصاص، جلد اول، صفحہ ۶۷)
(احکام القرآن للجصاص، جلد اول، صفحہ ۶۷)
اب میں وہ دلائل عرض کروں گا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’آیت رجم‘‘ جناب رسول اکرم ﷺ پر اتری اور وہ قرآن کی آیت تھی۔
۱۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اور زید بن خالد ؓ کی روایت میں جب دو آدمی زنا کا کیس لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’بخدا میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا‘‘۔ پھر آپؐ نے شادی شدہ زانیہ کے لئے رجم کی سزا تجویز کی۔ (موطا امام مالک، صحیح بخاری، باب الاعتراف بالزنا) ظاہر ہے کہ کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید ہے۔
۲۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنی تقریر میں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جناب محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب اتاری۔ رجم کی آیت بھی اس کتاب میں تھی جسے اللہ نے اتارا۔ ہم نے اس (آیت رجم) کو پڑھا، سمجھا اور یاد رکھا۔ حضور اکرم ﷺ نے رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی۔ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد مجھے ڈر لگتا ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ کتاب اللہ میں تو رجم کی آیت نہیں ہے اور خدا کے نازل کردہ فریضہ کو چھوڑنے کی وجہ سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں، حالاں کہ اللہ کی کتاب میں رجم ثابت ہے‘‘۔
(بخاری۔ رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت)
(بخاری۔ رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت)
۳۔ سعید بن مسیب کی روایت ہے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا، خبردار، آیت رجم کا انکار کرکے ہلاکت میں نہ پڑنا کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ہم زنا کی دونوں حدوں کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے رجم کی سزا دی اور ہم نے بھی یہ سزا دی۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس الزام کا اندیشہ نہ ہوتا کہ عمر ابن الخطاب نے کتاب اللہ میں زیادتی کی ہے تو میں یہ آیت (قرآن میں) لکھ دیتا: الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ (بوڑھا اور بوڑھی جب زنا کریں تو دونوں کو ضرور رجم کر دو)۔ بے شک یہ ایک آیت ہے جسے ہم نے پڑھا۔
(موطا امام مالک، باب: الزانی المحصن یرجم)
(موطا امام مالک، باب: الزانی المحصن یرجم)
۴۔علامہ آلوسیؒ نے اپنی مشہور تفسیر میں لکھا ہے: ونسخ الآیہ علی ما ارتضاہ بعض الاصولیین۔ بیان انتھاء التعبد بقراءتھا کآیۃ (الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فار جموھما نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم)۔ (روح المعانی، جلد اول، صفحۃ ۳۱۵)
احکام القرآن سے نسخ کا جو نظریہ میں نے نقل کیا ہے، وہ ذہن کو الجھن میں ضرور ڈالتا ہے کیوں کہ جس آیت کا حکم باقی ہو، اس کے منسوخ التلاوۃ قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم جناب رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی اور وہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن وہ قرآن کے مجموعہ میں نہیں پائی جاتی۔ کیوں؟ یہ ایک ناقابل حل معمہ ہے جس نے مجھے بے حد پریشان کر رکھا ہے۔ امید ہے کہ آپ میری ان قرآنی الجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ براہ عنایت ذرا تفصیل سے روشنی ڈالئے۔ اگر میرے دلائل آپ کو اپیل کریں تو رسائل و مسائل کی مندرجہ عبارت کو آپ بدل دیں‘‘۔
احکام القرآن سے نسخ کا جو نظریہ میں نے نقل کیا ہے، وہ ذہن کو الجھن میں ضرور ڈالتا ہے کیوں کہ جس آیت کا حکم باقی ہو، اس کے منسوخ التلاوۃ قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم جناب رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی اور وہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن وہ قرآن کے مجموعہ میں نہیں پائی جاتی۔ کیوں؟ یہ ایک ناقابل حل معمہ ہے جس نے مجھے بے حد پریشان کر رکھا ہے۔ امید ہے کہ آپ میری ان قرآنی الجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ براہ عنایت ذرا تفصیل سے روشنی ڈالئے۔ اگر میرے دلائل آپ کو اپیل کریں تو رسائل و مسائل کی مندرجہ عبارت کو آپ بدل دیں‘‘۔
جواب: بلاشبہ یہ بات متعدد روایات میں آئی ہے کہ آیت رجم قرآن کی آیت تھی۔ لیکن مجھے اس بات کو قبول کرنے سے جن جن وجوہ سے تامل ہے، وہ یہ ہیں:
۱۔ جن روایات میں اس آیت کا ذکر ہے، ان کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کے الفاظ میں نمایاں اختلاف ہے۔ کسی میں ……البتۃ کا لفظ ہے اور کسی میں نہیں ہے۔ کسی میں البتۃ پر آیت ختم ہوگئی ہے، کسی میں البتۃ کے بعد نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم کے الفاظ ہیں، اور کسی میں اس کے بجائے بما قضیا من اللذۃ کے الفاظ۔ اگر یہ واقعی قرآن کی آیت تھی، لوگوں کو یاد تھی اور سزائے رجم کے حق میں نص کی حیثیت رکھتی تھی تو اس کے الفاظ نقل کرنے میں یہ اختلاف کیسا ہے؟
۲۔ سنت سے جو حکم بتواتر معنی ثابت ہے وہ کچھ اور ہے اور آیت کے صریح الفاظ سے جو حکم نکلتا ہے وہ کچھ اور۔ سنت سے جو چیز ثابت ہے وہ تو یہ ہے کہ شادی شدہ مرد یا عورت جب زنا کا ارتکاب کرے تو اسے رجم کیا جائے خواہ وہ جوان ہو یا سن رسیدہ۔ بخلاف اس کے آیت سے جو حکم نکلتا ہے، وہ یہ ہے کہ بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت سے جب زنا کا صدور ہو تو اس کا رجم کیا جائے، خواہ وہ شادی شدہ ہو، یا نہ ہو۔ اس طرح یہ روایات سنت ثابتہ قطعیہ کے خلاف پڑتی ہے۔ اس مشکل کو رفع کرنے کے لئے بعض بزرگوں نے شیخ کو ثیب اور شیخہ کو ثیبہ کا ہم معنی قرار دینے کی کوشش کی ہے لیکن یہ قطعاً ایک من مانی تاویل ہے۔ عربی زبان کی لغت، محاورات، استعمالات حتیٰ کہ استعارات و کنایات تک میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ شیخ اور شیخہ کے الفاظ سے ثیب اور ثیبہ مراد لئے جا سکیں۔
۳۔ خود آیت کے الفاظ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ قرآن کے معیار فصاحت سے اس قدر فروتر ہیں کہ ذوقِ زبان یہ باور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ قرآن پاک میں نازل فرمائے ہوں گے۔
۴۔ کوئی مرفوع روایت ایسی موجود نہیں ہے جو یہ بتاتی ہو کہ نبی ﷺ نے اس کی تلاوت منسوخ کرنے اور مصحف سے اس کو خارج کردینے یا اس میں درج نہ کرنے کا حکم دیا ہو۔
۵۔ یہودیوں کے ہاں زنا کا جو مقدمہ پیش ہوا تھا، اس کا فیصلہ کرتے ہوئے حضور ﷺ نے توراۃ منگوائی تھی اور اس کی آیت کو فیصلۂ رجم کی بنا قرار دیا تھا۔ مسلم اور ابو داؤد میں ہے کہ حضور ﷺ نے اس مقدمہ میں رجم کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: اللھم انی اول من احیا امرک اذا اماتوہ (خدایا! میں پہلا شخص ہوں جو تیرے حکم کو زندہ کر رہا ہوں، جب کہ انہوں نے اسے مردہ کر دیا تھا)۔
۶۔ جس مقدمہ میں حضور ﷺ نے یہ فرما کر رجم کا فیصلہ صادر کیا تھا کہ ’’بخدا میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا‘‘۔ اس میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ حضور ﷺ نے آیت الشیخ والشیخۃ کا حوالہ دیا ہو اور فرمایا ہو کہ یہ ہے کتاب اللہ کا فیصلہ، اور اس کی تلاوت اگرچہ منسوخ ہے مگر اس کا حکم باقی ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کا مذکورہ بالا ارشاد لازماً اسی آیت کی طرف اشارہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی یہ تاویل بھی ممکن ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے چوں کہ آپ ﷺ حاکم مجاز تھے، اس لئے آپ ﷺ کا فیصلہ کتاب اللہ ہی کا فیصلہ ہے اور اس کی یہ تاویل بھی ممکن ہے کہ یہودیوں کے مقدمہ میں آپ ﷺ نے توراۃ کے مطابق رجم کا جو فیصلہ دیا تھا، اس کی توثیق بعد میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں فرما دی تھی۔ بر ابن عازب ؓ کی روایت ہے کہ اسی مقدمہ کے متعلق سورہ مائدہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جو یایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر سے لے کر ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلئک ھم الفاسقون (رکوع ۶۔۷) پر عائد ہوتی ہیں۔
(ملاحظہ ہو مسند احمد، مسلم اور ابوداؤد)
(ملاحظہ ہو مسند احمد، مسلم اور ابوداؤد)
۷۔ زنا بعدِ احصان کے لئے رجم کا قانون اپنے ثبوت کے لئے اس آیت کا محتاج نہیں ہے۔ اسے ثابت کرنے کے لئے بجائے خود یہ بات ہی کافی ہے کہ نبی ﷺ نے یہ حکم بیان فرمایا اور متعدد مقامات میں اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ پھر آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدینؓ اسی پر عمل کرتے رہے اور ان کے بعد تمام فقہا اور محدثین اس پر متفق رہے۔ یہ چیز جب ایک قانون کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے تو پھر ایک ایسی منسوخ التلاوۃ آیت ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جو اگر ثابت ہو بھی جائے تو اس قانون کے لئے حجت نہیں بن سکتی۔ اس لئے کہ یہ آیت رجم کی علت بڑھاپے میں زنا کے ارتکاب کو قرار دے رہی ہے اور جس قانون کے لئے اس کو حجت ٹھہرایا جاتا ہے، اس میں علتِ رجم شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرنا ہے۔
۸۔ یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اس آیت کی صرف تلاوت منسوخ ہوئی ہے اور اس کا حکم باقی رہ گیا ہے کیوں کہ جو حکم باقی رہا ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ بوڑھا اور بوڑھی اگر غیر شادی شدہ ہوں تو رجم کئے جائیں۔ بلکہ باقی رہنے والا حکم اس کے برعکس یہ ہے کہ غیر شادی شدہ مجرم اگر بوڑھا بھی ہو تو کوڑوں کی سزا کا مستحق ہے اور شادی شدہ مجرم اگر جوان بھی ہو تو اسے رجم کرنا چاہئے۔
اس سلسلے میں علامہ ابن ہمام کی یہ رائے بھی قابل غور ہے جسے علامہ آلوسی نے روح المعانی (جلد ۱۸، صفحہ ۷۱) میں نقل کیا ہے:
یہ کہنا کہ (زانیِ محصن کے حق میں سورہ نور کی آیت الزانی والزانیۃ فاجلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ کے حکم کو) منسوخ کرنے والی چیز سنت قطعیہ ہے، زیادہ صحیح ہے، بہ نسبت اس کے کہ آیت مذکورہ (الشیخ والشیخۃ) کو اس کا ناسخ قرار دیا جائے۔ اس لئے کہ یہ بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہے کہ یہ آیت قرآن میں نازل ہوئی تھی پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی۔ اگر حضرت عمرؓ نے خطبہ میں اس کا ذکر کیا اور لوگ خاموش رہے (جیسا کہ روایات میں بتایا جاتا ہے) تو یہ اس کا قطعی ثبوت نہیں ہے۔ کیوں کہ اجماعِ سکوتی کا حجت ہونا مختلف فیہ ہے۔ اور وہ حجت ہو بھی تو ہم قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام مجتہد صحابہ کرامؓ اس موقع پر موجود تھے۔ پھر اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر ؓ کی طرف اس روایت کی نسبت بھی ظنی ہے اور یہی وجہ ہے، واللہ اعلم، کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب شراحہ کو جلد اور رجم کی سزا دی تو کہا کہ میں نے اس کو کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگوائے ہیں اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق رجم کرایا ہے۔ اس قول میں حضرت علی ؓ نے رجم کے لئے منسوخ التلاوت آیتِ قرآنی کو حجت میں پیش نہیں فرمایا۔
یہ کہنا کہ (زانیِ محصن کے حق میں سورہ نور کی آیت الزانی والزانیۃ فاجلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ کے حکم کو) منسوخ کرنے والی چیز سنت قطعیہ ہے، زیادہ صحیح ہے، بہ نسبت اس کے کہ آیت مذکورہ (الشیخ والشیخۃ) کو اس کا ناسخ قرار دیا جائے۔ اس لئے کہ یہ بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہے کہ یہ آیت قرآن میں نازل ہوئی تھی پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی۔ اگر حضرت عمرؓ نے خطبہ میں اس کا ذکر کیا اور لوگ خاموش رہے (جیسا کہ روایات میں بتایا جاتا ہے) تو یہ اس کا قطعی ثبوت نہیں ہے۔ کیوں کہ اجماعِ سکوتی کا حجت ہونا مختلف فیہ ہے۔ اور وہ حجت ہو بھی تو ہم قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام مجتہد صحابہ کرامؓ اس موقع پر موجود تھے۔ پھر اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر ؓ کی طرف اس روایت کی نسبت بھی ظنی ہے اور یہی وجہ ہے، واللہ اعلم، کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب شراحہ کو جلد اور رجم کی سزا دی تو کہا کہ میں نے اس کو کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگوائے ہیں اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق رجم کرایا ہے۔ اس قول میں حضرت علی ؓ نے رجم کے لئے منسوخ التلاوت آیتِ قرآنی کو حجت میں پیش نہیں فرمایا۔
رہا نسخِ تلاوت مع بقاء الحکم کا مسئلہ، تو اس میں شک نہیں کہ علما اصول نسخ کی اس قسم کا ذکر کرتے ہیں مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ انتہائی غور کرنے پر بھی میں اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکا ہوں۔ نسخِ تلاوت کے لئے اگر موزوں ہوسکتی تھیں تو وہ آیتیں جن کا حکم منسوخ ہوچکا ہو نہ کہ کوئی ایسی آیت جس کا حکم باقی ہو۔ کوئی صاحب علم بزرگ اس مسئلے پر تشفی بخش بحث فرمائیں تو شکریے کے مستحق ہوں گے۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاوّل ۱۳۷۵ھ، نومبر ۱۹۵۵ء)
No comments:
Post a Comment