Showing posts with label Qari Hanif Dar. Show all posts
Showing posts with label Qari Hanif Dar. Show all posts

Tuesday, February 16, 2016

قرآن کی زبان خالص عربی۔

ملحدین یعنی خدا کے وجود کے منکروں کے مغالطے!
کل ایک دوست نے ملحدین کا یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن کہتا ھے کہ وە خالص عربی زبان میں نازل ھوا ھے جبکہ قرآن میں دیگر زبانوں کے الفاظ بھی ھیں ..
الجواب ،،،،،،،،،،
قرآن نے یہ کہا ھے کہ وە عربی مبین میں نازل کیا گیا ھے یعنی وە عربی جو اپنا بیان و تبیان. اپنا مقصد و مدعا عربوں کو سمجھانے میں مکمل طور پر کامیاب ھے. وە اتنی سادہ ھے کہ مویشی چرانے والے کی سمجھ میں بھی آتی ھے جبکہ ایک دانشور و فلسفی بھی گلہ نہیں کر سکتا کہ وە اس کی ذھنی سطح کی پیاس بجھانے میں ناکام رھی ھے. سبع معلقہ یعنی وہ سات شعراء کہ جن کے اشعار اپنے اعلی بیان اور عربئ معلی میں چوٹی کی شاعری کی وجہ سے کعبے میں معلق کئے گئے تھے. ان میں سب سے بڑا شاعر لبید کہ جس کے ایک شعر پر اس کو سجدہ کیا گیا وە جب مسلمان ھوا تو قرآن کی اعلی ادبی عربی کے سامنے ہتھیار ڈال بیٹھا اور شاعری ترک کر کے قرآن میں گم ھو گیا. جب عمر فاروق رضی الله عنہ نے اس کو لکھ بھیجا کہ ھمیں اپنی تازہ شاعری سے مستفید کرو تو اس نے تعجب سے لکھا کہ " آ بعد القرآن یا امیر المومنین؟ کیا قرآن کے نزول کے بھی ذوق سلیم پیاسا رہ سکتا ھے؟ بخدا الله نے مجھے جب سے سورہ البقرہ اور آل عمران عطا فرمائی ھے میں نے شاعری کو ترک کر دیا ھے. اس کے بعد سورہ البقرہ کی آخری آیات لکھ کر ان کو بھیج دیں.
عربی سمیت دنیا کی ھر زبان انسانوں کے ملاپ اور آپس کی بول چال کے نتیجے میں وجود میں آتی ھے اور ھر زبان میں دوسری زبان کے وہ الفاظ اس زبان کا حصہ بن جاتے ھیں جن کو کوئی قوم بخوبی سمجھنا شروع ھو جاتی ھے. عربوں کو ھمیشہ سراج کا مطلب چراغ ھی سمجھ آتا تھا اگرچہ وە فارسی زبان کے لفظ چراغ کا معرب ھے. خود ھماری زبان اردو کا نام ھی ترکی ھے. اردو لشکر یا فوج کو کہتے ھیں ترکی میں فوجی اکیڈمی کے باھر اردو کا بورڈ لگا ھوتا ھے. اردو لشکری زبان تھی جہاں فوجی اپنے اپنے علاقے اور قوم کی زبان چھوڑ کر دوسروں کو بات سمجھانے کے لئے ان کی زبان کے ھی کچھ الفاظ مستعار لیا کرتے تھے یوں یہ زبان وجود میں آئی .. جیسے اردو میں آج سنسکرت، عربی،فارسی کے ساتھ انگلش نے بھی جگہ بنا لی ھے اور آج ٹی وی. فریج لاوڈ اسپیکر. اسمبلی ، ریڈیو، ریلوے اسٹیشن. بس اسٹاپ وغیرہ انگلش کے دشمن مولوی بھی بولنے پر مجبور ھیں
اسی طرح کوئی قوم خالص نہیں ھوتی بلکہ مختلف قوموں کے لوگ ان میں شامل ھو جاتے ھیں. پاکستانی ھوں یا سعودی. اماراتی ھوں یا امریکی سب مختلف قومیتوں کا ملغوبہ ھیں. کل یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ھے کہ حضور کے جد امجد حضرت ابراھیم عرب نہیں تھے لہذا عربی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ھی نہیں .. جب آپ کسی زبان کو اس طرح سمجھ سکیں کہ خواب میں بھی بولیں تو ٹھیک بولیں اور سمجھ سکیں تو وە آپکی مادری زبان ھی گنی جاتی ھے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نسل در نسل عربوں میں رھنے اور عرب تسلیم کر لئے جانے والی قوم کے فرد تھے عربی بخوبی سمجھتے اور سمجھا لیتے تھے اور یہی کسی زبان کا مقصد ھوتا ھے . .

Monday, February 15, 2016

چہرے کا پردہ مستحب یا فرض ؟

چہرے کا پردہ مستحب یا فرض ؟
قاری حنیف ڈار

قاری حنیف کا تعاقب کرنے والے اپنے پیج پر مقدس جھوٹ لکھتے ھوئے فرماتے ھیں " معتبر عالم دین علامہ ناصر الدین البانی کا موقف استحباب کا ہے۔ البتہ فتنہ کے اندیشہ کی صورت میں وہ بھی چہرے کے پردے کے وجوب کے قائل ہیں۔ ( تعاقب والوں کا جھوٹ اور خیانت ) ""
میں ھمیشہ کہتا ھوں کہ مناظر خائن ھوتے ھیں چاھے ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ھو،، اسی کے نتیجے میں یہ بے توفیق بھی ھو جاتے ھیں ، اللہ ان کو کبھی حق کی راہ نہیں سجھاتا ،،
علامہ البانی کسی فتنے کے قائل نہیں اور نہ ھی فتنے کے نام پر عورت کے نقاب کے قائل ھیں ،، وہ البحث العاشر میں اسی فتنے کے نام پر بہانے تراشنے والوں کے خلاف مسلسل 14 صفحات لکھتے ھیں جن میں سے چند جملے کوٹ کرتا ھوں، (( فتنے کے نام پر عورت پر پابندی لگانے والا کس قدر جاھل ھے جو نہیں جانتا کہ تمام ائمہ فتنے کے وقت مرد کو ھی پابند کرتے ھیں کہ وہ اپنی نظر کو ھٹا لے ، و ان اللہ تبارک و تعالی لم یضع الذراع والسدود امامھا بما فرض علی النساء من الحجاب و بما امر بہ اجنسین من غض البصر،، و قال فی ذلک ذلکم اطھر لقلوبکم و قلوبھن ،( الحزاب -53 ) و یتناسون ان طبیعۃ البشر واحدۃ فی کل زمان کما جاء فی القرآن " زین للناس حب الشہوات من النساء والبنین ( ال عمران -14) و من ذالک قصۃ الفضل ابن عباسؓ مع الخثعمیۃ الحسناء، وتکرار نظرہ الہیا وھو حاج ؟ و کیف کان النبیﷺ یکتفی بصرف وجھہ عنھا ولا یامرھا بان تسدل علی وجھہا و ھذا ھو الوقت الفتۃ بھا ، وسد الذریعۃ دونھا بزعمھم ولکنہ ﷺ لم یفعل ذالک فدلۜ فعلہ علی بطلانِ ما ذھبوا الیہ من ایجاب الستر کما ھوا ظاھر لاتفاق العلماء علی لا یجوز تاخیر البیان عن وقت الحاجہ
( الجواب المفحم - 133- 136 )
اللہ نے عورت پر سد ذریعہ کے طور پر کوئی چیز فرض نہیں کی سوائے اس کے کہ اس نے دونوں جنسوں کو ایک ھی حکم دیا ھے کہ اپنی نظر میں غضِ بصر سے کام لیں اور اسی لئے دونوں سے کہا ھے کہ یہ تمہارے دلوں کے لئے بھی بہتر ھے اور ان کے دلوں کے لئے بھی ،یہ لوگ بھول جاتے ھیں کہ انسانی طبیعت ھمیشہ سے ایک ھی ھے جس کا ثبوت یہ آیت ھے کہ مزین کی گئیں ھیں لوگوں کے لئے عورتیں اور اولاد ،،اور یہی بات قصہ فضل بن عباسؓ سے بھی واضح ھوتی ھے کہ جب وہ خثعمیہ کی خوبصورت عورت کو بار بار دیکھے چلے جا رھے تھے جبکہ وہ حاج کی حالت میں تھے چنانچہ کس طرح نبئ کریم ﷺ نے صرف ان کا چہرہ پھیرنے پر اکتفا کیا اور عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا ، جبکہ اس وقت اس عورت کی وجہ سے فتنہ پبا ھو چکا تھا ، اور حضورﷺ نے حکم دے کر فتنے کا سد کیوں نہ کیا جیسا کہ یہ زعم رکھتے ھیں کہ فتنے میں چہرہ ڈھانپنا لازم ھے ؟ جب نبئ کریم ﷺ نے ھی یہ نہ کیا اور اپنے فعل سے ان لوگوں کے اس زعم کا بطلان کر دیا جس کا نام لے کر یہ عورت پر چہرے کو چھپانا واجب کرتے ھیں ،، " الجواب المفحِم "
جن لوگوں نے یہ جواز تراشہ کہ وہ عورت احرام میں تھی ،، وہ بھول گئے کہ ترمذی میں صراحت کے ساتھ واضح کیا گیا ھے کہ وہ قربانی کا دن تھا اور لوگ احرام سے فارغ ھو گئے تھے،،
اب ہم پانچویں موضوع یعنی ’’ غیرمحفوظ مقامات میں خصوصی احتیاطی تدابیر ‘‘ کے ضمن میں چند روایات کا جاجئزہ لیں گے۔ جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا سورہ احزاب آیات 60-58 میں پروردگار نے مسلمان خواتین کو ہدایت کی ہے کہ جب کسی ایسے مقام پر جائیں جہاں انہیں ستائے جانے اور تکلیف پہنچنے کا ڈرہو تو وہ ایک بڑی چادر اوڑھ لیں۔اس زمانے کی عرب معاشرت میں یہ معروف طریقہ پہلے سے چلاآرہاتھا کہ شریف اور باوقار خواتین باہرنکلتے ہوئے ایک بڑی چادر اوڑھاکرتی تھیں۔ قرآن مجید نے عام حالات میں اس کی ہدایت نہیں دی ۔ البتہ خطرے کے مقام پر جاتے وقت اس کا خیال رکھنے کو کہا۔تاکہ ان کو تنگ نہ کیا جائے۔ قرآن مجید کی اس ہدایت میں بھی چہرہ چھپانے کا براہ راست کوئی تذکرہ نہیں ۔البتہ اس سے بالواسطہ طورپر یہ بات نکلتی ہے کہ اگرخطرے کی نوعیت شدید ہو تو چہرہ بھی ایک حدتک چھپالیاجائے ۔ اس زمانے کی عرب خواتین چہرہ چھپانے کے لئے بڑی چادر یعنی جلباب استعمال نہیں کرتی تھیں۔ بلکہ جوخواتین چہرہ چھپانا چاہتیں وہ ’’نقاب‘‘ اوڑھتی تھیں اور ایسی خواتیں کو ’منقبہ ‘کہاجاتاتھا۔ قرآن مجید میں یا کسی حدیث میں بھی خوتین کو نقاب اوڑھنے کا حکم نہیں دیاگیا ۔ البتہ بعض واقعات کے ضمن میں ’منقبہ‘ خواتین کا ذکر آتاہے جن پر کچھ دیربعد ہم بحث کریں گے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ بعض خواتین میں ایک بڑی چادر اوڑھنے یا چہرہ چھپانے یعنی نقاب ڈالنے کا طریقہ بہت پہلے سے چلاآرہاہے۔ ایسا نہیں ہے کہ چودہ سو سال پہلے یہ حکم دیاگیا ہو۔ اس سے پہلے بے شمار تہذیبوں میں اس طرح کے رواج موجود تھے۔ مثلاً بارہ سوقبل مسیح کے آشوری دورمیں خواتین کے پردے کے لئے تفصیلی قوانین مرتب کئے گئے تھے۔ (اس ضمن میں تفصیلی بحث بہت دلچسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔ تاہم وہ اس کتاب کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ ہر اچھی انسائیکلو پیڈیا میں یہ تمام تفصیلات مل سکتی ہیں)صرف یہی نہیں بلکہ بہت سے معاشروں میں تو اہم مرد مثلاً بادشاہ وغیرہ بھی اپنے آپ کو رعایا کی نظروں سے دوررکھنے کی خاطر نقاب اوڑھا کرتے تھے۔ آج بھی کئی غیر مسلم معاشروں میں پردے کا رواج موجود ہے۔ ہندوؤں کے بعض طبقوں کے ہاں پردے کی انتہائی سخت پابندی کی جاتی تھی ۔آج بھی راجھستان جیسے کئی علاقوں میں غیر مسلم خواتین اپنے ہزاروں سال پرانے رواج کے مطابق چہرہ مکمل طور پر چھپاتی ہیں۔
اسی طرح اسلام سے پہلے عرب معاشرہ میں بھی بہت سی خواتین نقاب بھی اوڑھتی تھیں اور معززگھرانوں کی خواتین باہر نکلتے ہوئے جلباب بھی استعمال کرتی تھیں۔ اس کے بیشمار حوالے اسلام سے پہلے کے عربی شاعری میں ملتے ہیں ۔ مثلاً اپنی کتاب میں ایک شاعر سیرہ بن عمروقفسی کا یہ نقل کرتے ہیں
ونسوتکم فی الروع بادوجوھہا
بخان اماء ولا ماء لحرائر "میدان جنگ سے خوف اور گھبراہٹ کی شدت سے تمہاری خواتین کے منہ کھلے ہوئے تھے ۔ گویا وہ کنیزیں ہوں ۔ حالانکہ وہ کنیزیں نہیں بلکہ بیبیاں تھیں"
اسی طرح ربیع بن زیاد ، مالک کے مرثیہ میں کہتاہے۔
"قدکنایخبان الوجوہ تسترا"
مالک کے قتل سے پہلے ہماری عورتیں پردہ کی وجہ سے اپنے چہرہ چھپائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد ان کے منہ کھل گئے اور انہیں بے پردہ ہونا پڑا ۔
مولانا امین احسن اصلاحی تدبر قرآن جلد 6- صفحہ269-میں قبیلہ ہذیل کی ایک شاعرہ کا ایک شعر نقل کرتے ہیں۔
تمشی النسور الیہ وھی لا ھیۃ
مشی لغداری علیھن الجلابیت
ترجمہ
گویا نزول قرآن سے پہلے ایسی خواتین بھی موجود تھیں جونقاب اوڑھ کر چہرہ چھپاتی تھیں اور عام حالات میں بھی جلباب اوڑھتی تھیں۔ اور ایسی بھی خواتین تھیں جونقاب بھی نہیں اوڑھتی تھیں اور جلباب بھی استعمال نہیں کرتی تھیں۔ اسلام نے ان میں سے کسی چیز سے منع نہیں کیا نہ کسی چیز کا حکم دیا ۔ اس لئے کہ اسلام کا اصول یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے جاری رسم ورواج میں کم سے کم مداخلت کی جائے۔ چنانچہ اسلام نے صرف اتنی اصلاح کی کہ غیرمحفوظ مقامات پر جلباب کے استعمال کی ہدایت کردی اور اس کے علاوہ ہر ایک کواپنے اپنے طریقے پر عمل کرنے دیا۔
چنا نچہ اب اس ضمن میں چند روایات کا تجزیہ کیا جائے گا۔
ابوداؤد کتاب الجہاد کی روایت کے مطابق ایک جنگ میں ایک خاتون ام خلادؓ کا بیٹا شہید ہوگیا۔ وہ اس کے متعلق نبیؐ سے دریافت کرنے کے لئے آئیں اور ان کے منہ پر نقاب پڑی ہوئی تھی ۔ بعض صحابہ نے اس سے پوچھا۔ تم اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی ہو اور اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ اس خاتون نے جواب دیا ’’میں نے بیٹا کھودیامگر اپنی حیا نہیں کھوئی‘‘
اس روایت کے ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ ایک ضعیف روایت ہے۔ اس روایت کا ایک درمیانی راوی فرج بن فضالہ محدثین کے نزدیک ضعیف ۔ ناقابل استدلال اور ایک ایسا شخص تھا جو منکر روایتیں روایت کرتاتھا(الجرح والتعدیل جلدسات صفحہ 86اور تاریخ الکبیر جلد چھ صفحہ 137-)
تاہم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو تو اس سے صرف یہ ثابت ہو تاہے کہ ام خلادؓ ان خواتین میں شامل تھی جونقاب اوڑھتی تھیں۔(وھئی منقبتہ) یہ واقعہ جنگ احد کا ہے جبکہ ابھی سورہ نور اور سورہ احزا ب میں سے کوئی بھی نازل نہیں ہوئی تھی۔ پھر پردے کا احکام کی پابندی کا کیاسوال؟صحیح ترین روایات کی روسے ہم یہ جانتے ہیں کہ بے شمار خواتین بغیر نقاب کے حضورؐ کے سامنے آئی ہیں۔
اگلی روایت بھی ابوداؤد کتاب اللہ الترجیل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق ایک عورت نے پردے کے پیچھے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ ؐ کودرخواست دی۔ حضورؐ نے پوچھا یہ عورت کا ہا تھ ہے یا مردکا ؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا عورت کا ہاتھ ہے تو کم ازکم مہندی سے رنگ لئے ہوتے۔
یہ بھی ایک ضعیف روایت ہے ۔ اس کی درمیانی راوی صفیہ بنت عصمتہ کے متعلق ماہرین حدیث کاکہنا ہے کہ اس خاتون کے متعلق کچھ معلوم نہیں ۔(تقریب التہذیب صفحہ 480-)اس کے ایک اور درمیانی راوی مطیع بن میمون کو ماہرین حدیث ’’لین حدیث‘‘ کہتے ہیں (تقریب التہذیب صفحہ 339)
اس حدیث کی اندرونی شہادت سے بھی اس واقعہ کے متعلق بڑا شک وشبہ پیداہوتاہے۔ جب پردے کے پیچھے سے ایک انسان نے ہاتھ بڑھایا توکیا حضورؐ یہ نہیں جانتے تھے کہ پردے کے پیچھے سے توصرف ایک خاتون ہی ہاتھ بڑھا تی ہے؟اس روایت سے یہ بھی تاثرملتاہے گویا مہندی لگانا ہر عورت کیلئے لازم ہے۔ حالانکہ دین کی روسے یہ کوئی ضروری امر نہیں۔
فرض کیجئے یہ واقعہ بالکل صحیح ہے تب بھی اس سے صرف یہ معلوم ہو تا ہے کہ یہ خاتون پردے کے پیچھے تھی اور یہ ا س کا ایک انفرادی فعل تھا کیونکہ صحیح ترین روایا ت کی روسے ہم سب جانتے ہیں کہ سینکڑوں خواتین نے جضورؐ کے سامنے آکر گفتگو کی ہے۔
اگلی روایت موطاامام مالک کتاب الحج کی ہے اس روایت کے مطابق ایک تابعی خاتون فاطمہ بنت منذر بیان کرتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں اپنا دوپٹہ اپنے چہرے پر ڈال دیتی تھیں۔ ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی حضرت اسماء تھیں۔
اس کی تشریح یہ ہے کہ حضورؐ نے حج کے موقع پر خواتین کو بہت واضح طورپر نقاب اوڑھنے اور دستانے پہننے سے منع فرمایا تھا(المحرمۃ لاتنقب ولاتلبس القفازین) اس واقعے کے ذریعے یہ تابعی خاتون بتانا چاہ رہی ہیں کہ اگر ضرورت (مثلاً دھوپ کی شدت یامردوں کے ہجوم)کے وقت دوپٹہ چہرے پرڈال لیا جائے تو شاید اس میں حرج کی بات نہیں ہوگی ۔ اس لئے کہ ہم تو یوں کرتی تھیں اور حضرت اسماء نے ہمیں اس سے منع نہیں کیا(حدیث میں لفظ نُخمِّرْآیاہے) اس روایت کے ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں رہبی چاہیئے کہ اس کے درمیانی راوی ھشام بن مروہ تھے بعض اوقات تدلیس کرتے تھے یعنی ایک فرد کی بات دوسرے فردکے نام سے بیان کرتے تھے۔ (تقریب التہذیب صفحہ 364-)
اگلی روایت فتح الباری کتاب الحج میں حضرت عائشہؓ کی زبانی یوں بیان ہوئی ہے۔’’عورت حالت احرام میں اپنی چادر اپنے سر پر سے چہرے پر لٹکا لیاکرے۔‘‘
یہ روایت ضعیف ہے ۔ اس کا درمیا نی رواعی ھشیم اور ایک اور راوی اعمش تدیس کرتے تھے ۔ (تقریب التہذیب صفحہ 365,136) اس لئے یہ ناقابل استدلال ہے۔
صحیح بخاری کتاب البیوع کی روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے ’’نقاب پہننے والی عورت‘‘ (امراۃ منقبۃ) کی گواہی جائز قراردی ہے۔
اس روایت کی تشریح یہ ہے کہ اگر عدالت میں کوئی ایسی خاتون حاضر ہوجائے جس نے چہرے پر نقاب پہنی ہوئی ہو۔ تو اسے اپنی شناخت واضح کرنے کے لئے نقاب اتارنے کو نہ کہا جائے۔ یہ ایک غیر مناسب بات ہے ۔ اس کے بجائے قاضی یا توعلیحدگی میں اس کی شناخت کی تصدیق کرلے یا اس کی شناخت کو کوئی اور طریقہ استعمال کرلے۔ اس رویت سے ضمنی طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ حضورؐ کے زمانے میں چہرے پر نقاب پہننے والی خواتین بہت کم تعداد میں تھیں۔اسی لئے حضورؐ کو ان کے بارے میں خصوصی طورپر یہ بات کہنی پڑی۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کتاب الفضائل میں حضرت ابوسعید حذری حضورؐ کے متعلق اپنا تاثر بیان کرتے ہیں کہ ان میں ایسی شرم و حیا تھی جیسی ایک ایسی کنواری لڑکی میں ہوتی ہے جو پر دے میں رہتی ہو(من العذاراء فی حذرھا)۔آپ جب کسی چیز کو برا جانتے تھے۔ ہم اس کی نشانی آپ کے چہر ے سے پہچان لیتے۔
اس روایت کی تشریح یہ ہے کہ بعض کنواری لڑکیاں بہت زیادہ محتاط ہوتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں عام طورپر گھر سے باہر نہیں نکلتیں اور اگرنکلتی ہیں تو بہت احتیاط کے ساتھ نکلتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں بہت شرمگیں ہوتی ہیں اورکسی بھی بری بات سے ان کے چہرے پر شرم وحیاکی سرخی دوڑ جاتی ہے۔ حضورؐ بھی ایسے ہی حیادار انسان تھے۔ یہ روایت ایک امر واقعہ بیان کررہی ہے۔ اس سے کوئی دینی حکم نہیں ثابت ہوتا۔
صحیح بخاری کتاب المغازی کی ایک روایت میں حضرت انسںؓ غزوہ خیبر کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔کہ حضورؐ حضرت صفیہؓ سے شادی کرلی تھی لیکن ابھی عام مسلمانوں کو اس کا پورا علم نہیں تھا۔ چنانچہ کچھ مسلمان آپس میں گفتگو کررہے تھے کہ حضرت صفیہؓ کی حیثیت بیوی کی ہے یا کنیزکی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر رسول اللہ ؐ ان کو پردے کے پیچھے بٹھائیں گے تووہ امہات المومنین میں سے ہیں اوراگر پردے کے پیچھے نہ رکھیں توپھر وہ کنیز ہیں۔ جب رسول اللہ ؐ نے سفرفرمایا تو صفیہؓ کیلئے اونٹ پر اپنے پیچھے بیٹھنے کی جگہ بنائی۔ اور ان کے گرد پردہ تان دیا۔
یہ روایت بہت اچھے طریقے سے امہات المومنین اور عام مسلمان عورتوں کے درمیان فرق کی وضاحت کررہی ہے۔ صحابہ کرامؓ یہ بات جانتے تھے کہ حجاب کی سخت پابندیاں صرف امہات المومنین کے لئے ہیں باقی عورتوں کے لئے نہیں ہیں۔ چونکہ وہ جھجھک کے مارے یہ بات براہ راست حضورؐ سے نہیں پوچھ سکتے تھے کہ حضرت صفیہؓ کوامہات المومنین کا درجہ دیا گیا ہے یا نہیں چنانچہ انہوں نے اس کا معیار ہی یہی بنا لیاکہ اگر قرآن مجید کے حکم کے تحت سفر میں ان کے گرد پردہ تان دیا گیا تو وہ امہات المومنین سے ہونگی ورنہ نہیں ہونگی۔
جامع ترمذی کی ایک روایت کے مطابق حضورؐ نے فرمایا : عورت جب گھر سے نکلتی ہے توشیطان اس کو تاک لیتا ہے
یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔ اس لئے کہ اس کا ایک راوی فتادہ بن عامہ (جو ’’عن‘‘ سے روایت کرتاہے ) مدلس تھا اور روایات میں اپنی طرف سے باتیں بڑھایا کرتاتھا۔( ملاحظہ کیجئے تعریف اہل التقدیس ازابن دجرص صفحہ 102)
اس روایت کے ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کو مفتی محمد شفیعؒ نے معارف القرآن جلد ہفتم صفحہ 215پر نقل کرکے کہاہے کہ یہ حدیث ترمذی کے مطابق ’’صحیح حسن غریب ‘‘ ہے۔ یہاں مولانا روم سے تسامح ہواہے ۔ترمذی جن روایات کو حسن کہتا ہے وہ عام طور پر ضعیف ہوتی ہیں۔ جیسا کہ اس روایت کا حال ہے۔
طبرانی کی ایک روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرما یا : عورتوں کا باہر نکلنے میں کو ئی حصہ نہیں۔ بجزاس کے کہ باہر نکلنے کے لئے کوئی اضطراری ضرورت پیش آجائے۔
یہ روایت بھی شدید ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کا درمیانی راوی سوار بن معصب ’’متروک الحدیث‘‘ تھا۔ امام ہیثمی اس روایت کو نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں ’’رواہ الطبرانی فی الکبیر وفیہ سوار بن معصب وھومتروک الحدیث ‘‘ (مجمع الزوائد۔جلد۲ صفحہ ا ۲۰۰)۔ اس لئے یہ ناقابل استدلال اور ناقابل اعتبار ہے۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن حضورؐ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپؐنے صحابہ سے سوال کیا : عورت کے لئے کیا چیز بہتر ہے؟ صحابہؓ خاموش رہے ۔ پھر جب میں گھر گیا اوراپنی بیوی فاطمہ سے یہی سوال کیا تو فاطمہ نے جواب دیا : عورتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ نہ وہ مردوں کو دیکھیں، نہ مردان کو دیکھیں۔ جب میں نے فاطمہ کا یہ جواب حضوؐر سے بیان کیا توحضوؐر نے فرمایا : اس نے درست کہاہے۔ بیشک وہ میرا ایک جزوہے۔
یہ روایت مفتی محم دشفیعؒ نے بلاحوالہ ’’معارف القرآن ‘‘ جلد ہفتم صفحہ 216-پرنقل کیاہے یہ بھی ایک شدید ضعیف روایت ہے۔ اس لئے کہ اس کے راویوں کوحدیث کے ماہرین پہچانتے ہی نہیں۔ اس روایت کو امام ہیثمی نے مجمع الذوائد (جلد چار صفحہ255-اور جلد9صفحہ 303)میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اسے بزاز نے نقل کیاہے اوراس کے کئی راوی ایسے ہیں جنہیں میں نہیں پہچانتا‘‘ واضح رہے کہ جب حدیث کا کوئی ماہر کسی راوی کے متعلق یہ کہہ دے کہ میں اسے نہیں جانتا تو اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ یہ روایت محض قصہ گوئی اور داستان طرازی ہے جس کی کوئی حقیقی قدروقیمت نہیں۔
صحابہ کرامؓ میں سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے متعلق تفسیر ابن جریرجلد22- میں آیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
"اللہ نے عورتوں کو یہ حکم دیاہے کہ جب وہ کسی کام کیلئے گھروں سے نکلیں تواپنی چادروں کے پلواوپرسے ڈال کر اپنا منہ چھپالیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں "
حضرت ابن عباسؓ کی طرف اس تفسیر کی سند بہت کمزور ہے ۔ یہ روایت علی ابن ابی طلعہ نے ابن عباس سے بیان کی ہے۔ حالانکہ علی ابن ابی طلعہ کی ابن عباس سے ملاقات تک نہیں ہوئی(تقریب التہذیب صفحہ646-)۔ اس کے ایک اور درمیانی راوی ابوصالح ہیں ۔ جن کے بارے میں اگرچہ بعض محدثین کی اچھی ہے لیکن بعض محدثین کے نزدیک وہ حدیث کے معاملے میں جھوٹاہے۔ (تاریخ بغداد۔جلد9- ،صفحہ481-)
درج بالابحث میں ہم نے اپنی بساط کی حد تک وہ تمام روایات نقل کردی ہیں جومردوں اورعورتوں کے آپس میں اختلاط کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہیں ۔ان پر غوروفکر کے ضمن میں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اگر ان تمام روایات کو قرآن مجید سے آزاد ہوکر دیکھاجائے تو یہ تمام روایات آپس میں ایک دوسرے سے بہت بری طرح ٹکراتی ہیں۔لیکن اگر ان روایات کو قرآن مجیدکے نازل کردہ واضح احکامات کے تحت رکھ کر دیکھاجائے توہرروایت کاصحیح موقعہ اورمحل معلوم ہوجاتاہے۔ پھر ہر روایت انگوٹھی میں نگینے کی طرح بالکل فٹ بیٹھ جاتی ہے اورصرف وہی روایات محل نظررہ جاتی ہیں جو ضعیف ہیں ۔ خصوصاً یہ بات اہمیت کے قابل ہے کہ اس پوری بحث میں احادیث کی دوصحیح ترین کتابوں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ہرروایت اپنے موقعہ ومحل پربالکل صحیح بیٹھ گئی۔
مولانامودودیؒ کاموقف:
موجودہ دور کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو جن اہل علم نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں ایک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ اس کتاب کے دونوں مصنفین مولانامودودیؒ کے ذاتی احسان مند ہیں ۔ اس لئے کہ دینی جذبہ اور قرآن وسنت کی روشنی میں دین پرغوروفکر کی طرف میلان ،ان دونوں نے مولانا مودودی ؒ کی تحریروں سے ہی سیکھا ہے۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ؐ کی باتوں کے سوا ہر مسلمان کے ہاں صواب وخطاکی گنجائش موجود ہے۔ چونکہ اس مسئلے میں ،ان دونوں مصنفین کے خیال میں ،مولانامودودی ؒ کا موقف صحیح نہیں ہے اس لئے نہایت ادب واحترام کے ساتھ ان کے موقف کا تجزیہ کیا جائے گا۔
مولانا مودودی ؒ نے اس موضوع پر اپنے خیالات ’’پردہ‘‘ ’’خو اتین اور دینی مسائل‘‘ ’’تفہیم القرآن جلد سوم تفسیر سورہ نور‘‘ اور تفہیم القرآن جلد چہارم تفسیر سورہ احزاب ‘‘ میں تحریرکئے ہیں۔ اس کے علاوہ "رسائل ومسائل "میں بھی مختلف مقامات پر اس ضمن میں مواد موجود ہے۔
مولانامودودیؒ کے تصورپردہ کو درج ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ * پردے کے ضمن میں اصل اہمیت سورہ احزاب کی آیت نمبر33-32 اور آیت نمبر59- کو حاصل ہے ۔ اس کے تحت ایک خاتون گھر سے باہر جاتے وقت اپنا پوراچہرہ چھپائے گی۔ زیادہ سے زیادہ وہ ایک آنکھ کھلی رکھ سکتی ہے۔
* گھر کے اندر بھی وہ خاوند کے سوا تمام محرم لوگوں سے سینہ اور سر چھپائے گی۔
* محرم مردوں کے سوا باقی سب مردوں سے ایک خاتون چہرہ چھپائے گی۔
* رشتہ دار جو نہ تومحرم ہوں اور نہ ہی بالکل اجنبیوں کی فہرست میں شامل ہوں ، ان کے بارے میں شریعت کی پالیسی غیر واضح ہے۔
* سورہ نور کی ہدایات بنیادی طور پر مستثنیات سے متعلق ہیں۔مثلاً جب کسی ہنگامی صورتحال میں آمنا سامنا ہوجائے ۔ عام حالات میں چہر ے کا پردہ کرنا ہی اصل قانون ہے۔
اب ہم مولانا مودودی ؒ کے نقطہ نظر کا تجزیہ کریں گے۔
جیسا کہ ہم انتہائی تفصیل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں کہ سورہ احزاب آیات۔33-32اوران کے علاوہ بھی بہت سی آیات خالصتاً امہات المومنین سے متعلق ہیں۔ قرآن خود ان کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یٰنساءَ النبی لستن کاحدٍ من النساء: ’’نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ مولانا مودودیؒ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ایک اسلوب ہے جیسا ایک باپ اپنے بچے سے کہے''تم بازاری بچوں کی طرح نہیں ہو''حالانکہ اس مثال اور قرآن مجید کے اسلوب میں بڑا فرق ہے۔ اگر قرآن مجید یہ کہتا کہ''نبی کی بیویو، تم بری یا بازاری عورتوں کی طرح نہیں ہو''تب تو ایک امکان تھا کہ ان کے مفہوم کو عام کر دیا جائے۔ لیکن جب قرآن مجید نے ''عام عورتوں''کا لفظ استعمال کیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید حقیقتاً نبی کی بیویوں اور عام عورتوں میں فرق کرتا ہے۔
اسی ضمن میں مولانا، مودودیؒ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ آگے تین ہدایات آئی ہیں۔ اس میں کون سی ایسی بات ہے جو حضورؐ کی ازواج کے لئے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لئے مطلوب نہ ہو۔ اس کے جواب میں ہم پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ جہاں تک نماز و زکوا ۃ کا تعلق ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو اتنی اہم ہیں کہ پروردگار رسول کو بھی ان کی طرف علیحدگی سے توجہ دلاتا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ رسول کے لئے بعض احکام پوری امت سے مختلف ہیں۔ جہا ں تک باقی ہدایات کا تعلق ہے مثلاً : لا تخضعن بالقول، قرن فی بیوتکن، لاتبرجن تبریج الجاھلیت الاولی اور واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکن: ان سب کا تعلق ازواج نبی سے ہے۔اس کے برعکس عام مسلمان خواتین کے لئے ہدایات اسی سورت میں بھی آئی ہیں اور خصوصاً سورہ نور میں آئی ہیں
اس ضمن میں مولانا مودودیؒ نے اس بات پر بھی غورنہیں فرمایا کہ کیا پروردگار کو ہمارے ایمان وعمل سے دشمنی ہے جو اس نے الفاظ توایک طرح کے استعمال کئے اور مفہوم ان کا دوسرا ہے۔ اگر پروردگار تمام مسلمان خواتین کو یہ ہدایت دینا چاہتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا کہ وہ آیت نمبر59-والے الفاظ یعنی : یاایھاالنبی قل لازواجک وبنٰتک ونساء المومنین۔۔۔ یہاں بھی استعمال کرلیتا۔اگرپروردگارنے آیت نمبر33-32-میں یہ الفاظ استعمال نہیں کئے تو ظاہر ہے اس کی کوئی ٹھوس وجہ ہوگی۔
سورۃ احزاب آیت نمبر59- کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کا موقف یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین باہر جاتے وقت چادراس طریقہ سے اوڑھ لیں کہ چہرہ بھی پوری طرح چھپ جائے ۔ زیادہ سے زیادہ اجازت یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لئے ایک آنکھ یا دونوں آنکھیں کھلی رکھی جائیں۔ یہاں مولانا نے اس فقرے کے سیاق وسباق کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ منافقین پر سخت تنقید اور زجروتوبیخ کے درمیان میں یہ آیت آئی۔
دوسرایہ کہ اگر قرآن مجید کو اگر یہی ہدایت دینی تھی کہ خواتین چہرہ چھپالیں تو اس کے لئے قرآن مجید نے معروف لفظ ’’نقاب‘‘ کااستعمال کیوں نہیں کیا۔ جبکہ اس سوسائٹی میں بہت سی عورتیں نقاب سے منہ چھپاتی تھیں۔ تیسرا یہ کہ اگرقرآن مجید جلباب یعنی بڑی چادر ہی کے ذریعے چہرہ چھپانے کاحکم دیناچاہتا تھا تو اس نے صاف کیوں نہیں کہا کہ جلباب سے خواتین اپنا چہرہ چھپائیں۔ اس کے بجائے قرآن مجید نے "یدینن علیھن من جلابیھن کے الفاظ کیوں استعمال کیے جس کے معنی میں بڑی وسعت ہے۔ چوتھا یہ کہ اس کے ساتھ لگے ہوئے ان الفاظ کا کیامطلب ہے کہ : ان یعرفن فلا یؤذین۔ سوال یہ ہے کہ جس سوسائٹی میں چادر اوڑھ کرچہرہ نہ چھپانے والی خاتون کوبھی شریف خاتون سمجھاجائے اورنہ ستایا جائے ۔ کیا وہاں بھی ایک خاتوں کے لئے چہرہ چھپانا لازم ہے؟
درج بالا سوالات اٹھا نے سے ہمارامقصد یہ ہے کہ قرآن مجید سے کوئی ہدایت اخذکرتے وقت یہ لازم ہے کہ اس حکم کے پورے سیاق وسباق اور اس کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جائے۔ تبھی اس حکم کی پوری حکمت اوروسعت سمجھ میں آتی ہے۔
اسی آیت کی تشریح کے حوالے سے مولانامودودی ؒ نے حضرت ابن عباسؓ اور بعض دوسرے مفسرین کی آراء نقل کی ہیں۔ اس میں اصل اہمیت ابن عباسؓ کی تفسیر کی ہے۔ اس کے متعلق یہ بات گزرچکی ہے کہ ابن عباسؓ سے اس تفسیر کی نسبت ہی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ علی ابن ابی طلعہ کی ابن عباسؓ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔
جہاں تک باقی مفسرین کرامؒ کا تعلق ہے۔ تومولانا مولانا مودودی خودبھی ان سب سے تفہیم القرآن میں بے شمار جگہوں پر اختلاف کرچکے ہیں (بطورمثال صرف سورہ التین کا حوالہ کافی ہوگا)۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ جتنے بھی مفسرین کرام کے حوالے مولانامودودیؒ نے نقل کئے ہیں ان کی آرا کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہو تاہے کہ ان میں سے بیشتر غیر محفوظ مقامات ہی کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔ تاہم چونکہ یہ محض ایک ضمنی بحث ہے اس لئے اس سے ہم صرف نظرکرتے ہیں۔
مولانامودودی کے تصورحجاب کا دوسرانکتہ یہ ہے کہ ایک خاتون کو گھرکے اندر بھی اپنے خاوند کے سوا تمام محرم رشتہ داروں سے سینہ سرچھپانا چاہیے۔ یعنی گھر کے اندر بھی اس کو ہر وقت اس طریقہ سے دوپٹہ پہنناچاہیئے کہ اس سے سراور سینہ چھپارہے اور چہرے اور ہاتھوں کے سوا سارا جسم مستقل چھپارہے ۔(پردہ ۔صفحہ284-)
اس کی دلیل میں مولانا مودودی نے چھ روایا ت پیش کی ہیں ۔ یہ چھ کی چھ روایا ت ضعیف ہیں۔ موجودہ دورکے عالم اسلام کے سب سے بڑے محدث علامہ ناصرالدین البانی نے اپنی کتاب ’’حجاب المراۃ المسلمہ‘‘ جس کو اب " جلباب المراۃ المسلمہ " کر لیا گیا ھے - میں ان تمام روایات کے ضعف پر تفصیلی بحث کی ہے۔ یہ روایات اور ان کی کمزوری پر مختصر بحث ہم نے بھی میں کی ہے۔ ان کے مقابلے میں سورۃ نور اور بخاری ومسلم کی صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ ایک خاتون اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے بے تکلفی اور پورے زیب وزینت کے ساتھ آسکتی ہے۔ مگر مولانا مودودی کی توجہ اس طرف نہیں گئی۔
مولانا مودودی کا تیسرانکتہ یہ ہے کہ محرم مردوں کے سوا باقی سب مردوں سے ایک خاتون چہرہ چھپائے گی۔ اس ضمن میں مولانانے تفہیم القرآن جلدتین صفحہ382-381- پراپنے دلائل دئے ہیں پہلے انہوں حضرت عائشہؓ کا واقعہ افک نقل کیا ہے ۔ اور دلیل یہ دی ہے کہ جب صبح ایک صحابی کا وہاں سے گزرہوا تووہ مجھے پہچان گئے کیونکہ وہ ’’حجاب کے حکم سے پہلے مجھے دیکھ چکے تھے‘‘ یہ واقعہ ایک زوجہ نبی سے متعلق تھا۔ اور سورۃ احزاب کے احکام حجاب بھی ازواج نبی ہی کے متعلق نازل ہوئے تھے۔ اسے عام عورتوں پر قطعاً قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد مولانا مودودی ام خلاد نامی خاتون کے واقعے سے استدلال کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے۔ تیسری دلیل کے طورپر وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کے مطابق حضورؐ نے پردے کے پیچھے بیٹھی ایک عورت کا ہاتھ دیکھ کرپوچھا کہ یہ مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا؟ اس روایت سے مولانا مودودی ی ثابت کرناچاہتے ہیں کہ چونکہ اس زمانے میں پردے کا حکم آچکا تھا اس لئے وہ خاتون پردے کے پیچھے بیٹھی ہو ئی تھی۔ یہ پوری روایت ہی بالکل ضعیف ہے اور فرض کیجئے یہ واقعہ صحیح بھی ہو تو اس سے صرف یہ معلوم ہو تا ہے کہ اس زمانے میں بعض عورتیں پردہ کرتی تھیں ۔ جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے زمانہ جاہلیت میں بھی کئی عورتیں پردہ بھی کرتی تھیں اور چہرے پرنقاب بھی اوڑھتی تھیں۔ اسلام نے نہ اس سے منع کیااور نہ ہی عام حالات میں اس کاحکم دیا۔
اس کے بعد مولانامودودی نے حضرت عائشہؓ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ ہم لوگ حج کے لئے بحالت احرام مکہ کی طرف جارہے تھے ۔ جب مسافرہمارے پاس سے گزرنے لگتے توہم عورتیں اپنے سر سے چادر کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں اورجب وہ گزرجاتے توہم منہ کھول لیتی تھیں۔ یہ بھی ایک ضعیف روایت ہے اور ان تمام باقی روایات سے ٹکرا تی ہے جوصحیح سند کے ساتھ احکام میں وارد ہوئی ہیں کہ احرام والی عورت کواپنے چہرے پر نقاب نہیں ڈالنا چاہیئے۔ (بخاری ،نسائی ،ابوداؤو ،مسنداحمد ،بیہقی وغیرہ ۔ میں اس مفہوم کی کئی روایات صحیح سندوں سے منقول ہیں) ۔ تاہم اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اس کی تاویل یہ ہے کہ حجاب کا یہ قانون خصوصی طورپر ازواج نبی ؐ کے لئے تھا۔ حضورؐ کے ساتھ ان کی ازواج سفرکررہی تھیں نہ کہ عام خواتین۔ کیونکہ حج کے سفرکے موقعہ پر توسب خواتین اپنے اپنے محرموں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔
گویا اس موضوع پر مولانا مودودی نے جتنی روایات سے استدلال کیا ہے۔ ا ن میں سوائے واقعہ افک کے، باقی سب ضعیف ہیں۔ اور واقعہ افک خصوصی طور پر ایک زوجہ نبیﷺ سے متعلق ہے۔
چونکہ مولانا مودودیؒ اعلیٰ پائے کے ادیب اور ایک بہترین انشاء پرداز بھی ہیں اس لئے وہ بعض اوقات ایسے دلائل بھی پیش فرما دیتے ہیں جو ایک لمحے کے لئے انسان کو بہت مضبوط لگتی ہیں۔ مگر اس کا وقیع تر تجزیہ کچھ اور نتائج بیان کرتا ہے۔ مثلاً مولانا مودودی نے ایک جگہ (تفہیم القرآن جلد سوم صفحہ 381) پر اپنی تائید میں صحیح بخاری اور ترمذی سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حجۃالوداع کے موقعہ پر ایک عورت حضورؐ سے کچھ پوچھنے لگیں تو حضورؐ کے چچا زاد بھائی فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ چونکہ اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس خاتون کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ اس لئے مولانا نے آگے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ چونکہ وہ خاتون حالت احرام میں تھیں اور احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ اس لئے اس خاتون نے نقاب نہیں اوڑھا ہوا تھا۔ یہ پوری تاویل بالکل غلط ہے۔ اس لئے کہ ترمذی کی روایت میں خود اسی حدیث میں یہ آیا ہے کہ یہ واقعہ قربانی کے بعد کا ہے اور ظاہر ہے کہ قربانی کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے۔
اسی طرح مولانا مودودی اس بات کی تاویل کرتے ہوئے کہ''حالت احرام میں عورتوں کے لئے چہرے پر نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے کی ممانعت ہے۔ کہتے ہیں کہ گویا اس معاملے میں پہلے چہرہ چھپانے کا کوئی حکم آ چکا تھا(پردہ صفحہ 319-318 )۔ اسی لئے اس سے احرام کی حالت کو مستشنیٰ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات مسلم ہے کہ قرآن مجید میں اور احادیث کے پورے ذخیرے میں کسی ضعیف ترین حدیث میں بھی نقاب اور دستانے کاکوئی حکم نہیں آیا۔ اصل بات یہ تھی کہ ان دونوں چیزوں کا رواج نزول اسلام سے بہت پہلے سے یعنی زمانہء جاھلیت کے دور سے ہی چلا آرہا ہے۔ اسلام نے ان کے متعلق عام حالات میں کوئی مثبت یا منفی حکم نازل نہیں کیا۔ البتہ حالت احرام میں اس سے واضح طور پر روک دیا اس لئے کہ یہ حج کے فقیرانہ وضع قطع کے خلاف ہے،،
( اسلام اور عورت - از ڈاکٹر فاروق خان شھید ، واضح رھے مصنف کو یہ کتاب لکھنے کی پاداش میں شھید کر دیا گیا تھا جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی )

Wednesday, February 10, 2016

چہرے کا پردہ فرض یا مستحب !

اللہ پاک نے جو بھی احکامات دیئے ھیں وہ امر کے صیغے میں ھی دیئے ھیں مگر ان میں سے کچھ فرض ھیں تو کچھ مستحب ھیں ،، سورہ بقرہ میں حکم دیا ھے کہ " وقولوا للناس حسناً و اقیموا الصلوۃ " اور لوگوں کے ساتھ احسن طریقے سے بات کیا کرو اور نماز قائم کرو ،، یہاں صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں غیر مسلموں کے ساتھ بھی بہترین طریقے سے گفتگو کرنے کا حکم دیا ھے کیونکہ تم اللہ کی نمائندگی کرتے ھو لہذا اچھی گفتگو اچھا تأثر پیدا کرتی ھے جس سے انسان آپ سے مانوس ھوتا ،پھر آپ کا دوست بنتا اور پھر آپ کے خیالات کو اپناتا ھے ،، مگر سب سے زیادہ بدتمیزی کے ساتھ گفتگو ھی مذھبی طبقہ کرتا ھے ،، ملحدین کے پیج پر چلے جاؤ تو ان کی سچی بات پر بھی ان کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتے ھیں ،، اپنے مسلمان بھائی سے ذرا سا بھی اختلاف ھو جائے تو اسے بھی ماں بہن کی سناتے ،کافر ،مرتد اور ملحد قرار دیتے ھیں گویا اس بارے میں کوئی حکم شریعت نے دیا ھی نہیں ،کتاب اللہ وراء ظھورھم کأنھم لا یعلمون ،، اللہ کی کتاب انہوں نے پشت پیچھے پھینک رکھی ھے جیسے یہ اسے جانتے تک نہیں ، کتاب اللہ کے وہ احکامات جو ان کی قبائیلی زندگی کو سوٹ کرتے ھیں اور ان کی مردانہ فطرت کی تسکین کرتے ھیں ،، وہ مستحب بھی ھوں تو یہ ان کو فرض بنائے بغیر نہیں رھتے مگر جو ان کے اپنے اختیار کردہ تصور کے خلاف ھو وہ فرض بھی ھو تو پسِ پشت چلا جاتا ھے ،، دین کے بھی ھم نے ٹکڑے کر رکھے ھیں اور " کل حزبٍ بما لدیھم فرحون" کا نقشہ کھینچ رکھا ھے کہ جو ٹکڑا جس کے پاس ھے وھی پورا اسلام اور پوری شریعت ھے ،،،،
جو لوگ پردے کی فرضیت کے قائل نہیں وہ بھی پردے کے مخالف نہیں ، مگر یہ فرضیت سے انکار کو بہانہ بنا کر ان کی مستورات پر بھی زبانین دراز کرتے ھیں ، اور خود کو اسلام کا خادم بھی کہتے ھیں ،، اخلاق کے اسی مظاھرے کی وجہ سے پڑھا لکھا نوجوان ان سے متنفر ھے ،وہ چونکہ انہی کو دین کا نمائندہ سمجھتا ھے لہذا دین سے بھی دور ھوتا جا رھا ھے ،، آپ کہہ سکتے ھیں کہ پردہ تو پردہ ھے کوئی اس کو مستحب سمجھ کر کرے یا فرض سمجھ کر کرے فرق کیا پڑتا ھے ،، عرض کروں گا کہ اس میں زمیں آسمان کا فرق ھے، جس طرح نماز میں فرض اور سنن ونوافل ھیں ،وضو میں فرض و سنن ھیں ، اسی طرح دین کے ھر معاملے میں ایک اعلی تر صورت ھے جو لازمی ھے اور ایک ادنی ھے جو آپ کی مرضی پر ھے کریں گے تو اجر پا لیں گے نہیں کریں گے تو نکیر کوئی نہیں کر سکتا اور جبر کوئی نہیں کر سکتا ،، پردہ مستحب ھے جو خاتون بڑی چادر سے اپنے آپ کو لپٹ لتی ھے اگرچہ اس کا چہرہ اور ھاتھ پاؤں نظرآتے ھوں تو وہ شریعت کا حکم پورا کر دیتی ھے ، اگر اس کی مثال دیکھنی ھو تو ایرانی خواتین کو دیکھ لیں چاھے حج پر یا یونیورسٹی اور اسپتال میں یا سڑک پر وہ جس طرح اپنے آپ کو چادر میں لپیٹے ھوتی ھے ، اس کا نام ھے شرعی پردہ یا فرض پردہ ،چہرے کا پردہ مستحب ھے ،،،جس کے دلائل میں ان شاء اللہ اگلی قسط سے شروع کرونگا ،،
ولا ینبغی للمرأۃ المحرمۃ ان تنتقب، فان ارادت ان تغطی وجھھا فلتسدل الثوب سدلاً من فوق الخمار و ھو قول ابی حنیفہ والعامۃ من فقہائنا ،،
جو لوگ چہرے کے پردے کو فرض سمجھتے ھیں ان کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ھے ، وہ اپنے آپ کو ساتویں آسمان پر سمجھتی ھیں اور جس نے چہرہ ننگا رکھا ھوتا ھے اس کو پاتال میں سمجھتی ھیں ،کئ لوگ ننگے چہرے مگر جلباب میں لپٹی عورت کی تصویر لگا کر نیچے کیپشن دیتے ھیں کہ " یہ پردہ نہیں ھے " یہ کام زیادہ تر خواتین کرتی ھیں ،،، یہ ھوتا ھے پردے کو فرض سمجھنے کا اثر ،، جبکہ مستحب میں کرنے اور نہ کرنے والا کسی کو نکیر نہیں کر سکتا ،،یہ پسندیدہ ھے ،، جب شریعت چہرے کے پردے کو " ان شاءت " اگر وہ کرنا چاھے تو کر لے ،،کہہ کر عورت کی مرضی پر چھوڑتی ھے تو یہ دین کا کام کرنے والے آئستہ آئستہ شارع بن کر ان پر تھوپنا کیوں شروع ھو جاتے ھیں ،، معاشرتی زندگی پر اس سوچ کا دوسرا اور عملی فرق یہ پڑتا ھے کہ ،ایک بچی والدین کے گھر پردہ کرتی ھے ،، اگر والدین کی اطاعت کرتی ھے تو بہت اچھی بات ھے اللہ پاک سے دھرا اجر پائے گی ،، لیکن جب اس کی شادی ھو جاتی ھے اور اس کا سسرال یا شوھر کہتا ھے کہ تم بس چادر لے لیا کرو چہرہ مت ڈھانکا کرو تو اسے چہرہ ننگا کر لینے میں کوئی حرج نہیں وھاں شوھر کی اطاعت کرے اور آرام سے گھر چلائے ،، مگر متشددین یہ سبق دیتے ھیں کہ طلاق لے لینا مگر پردہ مت اتارنا ،، یوں گھر اجڑ جاتے ھیں ،، چہرے کا پردہ اور ائمہ اربعہ ،،، 1- امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی ،، قال الامام محمد بن الحسن فی "" الموطا " و قال ابوجعفر الطحاوی فی " شرح المعانی الآثار-2 /392-393 ابیح للناس ان ینظروا الی ما لیس بمحرۜم علیھم من النساء الی وجوھھن و اکفھن ، و حرم ذالک علیھم من ازواج النبیﷺ و ھو قول ابی حنیفہ و ابی یوسف و محمد رحمھم اللہ ،، امام محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ھیں کہ عورت کو احرام کی حالت میں اپنا چہرہ نقاب میں نہیں چھپانا چاھئے اگر اس نے چہرہ چھپانا ھے تو دوپٹے کے اوپر سے کپرا لٹکا لے ، اور یہی قول ابوحنیفہ اور ھمارے دیگر فقہاء کا ھے ( الموطا محمد ) امام طحاوی شرح معانی الآثار مین لکھتے ھیں کہ لوگوں پر عام عورتوں کے چہرے اور ھاتھ دیکھنا مباح ھے اور ازواج النبی ﷺ کا چہرہ اور ھاتھ دیکھنا حرام ھے ،، یہی قول ابی حنیفہ، اور ابی یوسف اور محمد رحمھم اللہ کا ھے ،، 2،، امام مالک روی صاحبہ عبدالرحمان بن قاسم المصری فی المدونہ (2/221) نحو قول امام محمد فی المحرمہ اذا ارادت ان تسدل علی وجھہا، وزاد فی البیان فقال ، " فان کانت لا ترید ستراً فلا تسدل " و نقلہ ابن عبدالبر فی " التمھید " (15/111) وارتضاہ وقال بعد ان ذکر تفسیر ابن عباس و ابن عمر لآیۃ" الا ما ظھر منھا " بالوجہ والکفین "
ابوداؤد حضرت عائشہؓ سے روایت لائے ھیں کہ ،،
و علی قول ابن عباس وابن عمر الفقھاء فی ھٰذا الباب( قال ) فھذا ما جاء فی المرآۃ و حکمھا فی الاستتار فی صلاتھا و غیر صلاتھا ،، یعنی ما ظھر منھا کی تفسیر مین تمام فقہا ان دونوں کی رائے پر ھیں کہ نماز یا نماز کے باھر عورت پر چہرہ اور ھاتھ ڈھانپنا واجب نہیں ۔( الموطا 935/2) موطا میں یحی کی روایت ھے کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ کیا عورت غیر محرم کے ساتھ کھانا کھا سکتی ھے یا اپنے غلام کے ساتھ ؟؟ تو امام مالک نے جواب میں فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ شوھر کے ساتھ دوسرے جاننے والے مردوں کے ساتھ کھانا کھا سکتی ھے ،، اس سے استدلال کرتے ھوئے فقہ مالکی کے فقیہہ الباجی " المتقی شرح الموطا" میں کہتے ھیں کہ اس سے یہی موکد ھوتا ھے کہ عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھا جا سکتا ھے کیونکہ یہی کھانے کے دوران نظر آتے ھیں ( المتقی شرح الموطا 252/7 ) 3- امام شافعی ،،، امام شافعی اپنی کتاب " الام " میں لکھتے ھیں کہ عورت کو احرام میں چہرہ نہیں ڈھانپنا چاھئے ، اگر چہرہ چھپانا چاھتی ھے تو کپڑا چہرے کے ساتھ نہ لگنے دے ،، امام بغوی شرح میں لکھتے ھیں کہ کسی آزاد عورت کے بدن کو دیکھنا کسی مرد کے حق میں جائز نہیں وہ اس کی کسی چیز پر نظر نہیں ڈال سکتا سوائے اس کے چہرے اور ھاتھوں کی ہتھیلیوں کے گِٹوں تک،، اور اگر اسے اپنے اوپر فتنے کا خدشہ ھے تو مرد پر واجب ھے کہ اپنی نظر کو نیچا رکھے ( نہ کہ عورت کو منہ چھپانے پر مجبور کرے کہ میرا ایمان گیا ) 4- امام احمد بن حنبل امام احمد کے بیٹے صالح مسائل میں لکھتے ھیں کہ ،،، احرام والی عورت نقاب نہ ڈالے البتہ کپڑا تھوڑا سے لٹکا دے تو کوئی حرج نہیں ،، کوئی حرج نہیں کا جملہ بتا رھا ھے کہ عورت کی مرضی پر معاملے کو چھوڑ دیا گیا ھے ،، اپنی تبصرے میں لکھتے ھیں کہ اگر چہرہ اور ھاتھ ستر ھوتے تو ان کو چھپانے سے منع نہ کیا جاتا کیونکہ خرید و فروخت اور لینے دینے کے لئے چہرے اور ھاتھوں کا کھلا ھونا فطری بات ھے ،، اس پوری بحث میں چاروں فقہاء اس پر متفق ھیں کہ سدل یعنی چہرے پر پردہ لٹکانا عورت کی اپنی مرضی پر ھے نہ کہ اس پر واجب ھے ،، حضرت عائشہ صدیقہؓ کا قول بہیقی نے نقل کیا ھے کہ " المحرمہ تلبس من الثیاب ما شاءت الا ثوباً مسہ ورس او زعفران، ولا تتبرقع ،ولا تلثم ،، وتسدل الثوب علی وجھہا " ان شاءت" احرام والی عورت ھر قسم کا لباس پہن سکتی ھے سوائے اس کے کہ جس کو ورسیا زعفران وغیرہ لگی ھو اور نہ ھی برقع کرے اور نہ ھی چہرے پہ ڈھاٹا باندھے " البتہ اگر چاھے تو اوپر سے کپڑا لٹکا لے ،، اس پورے قول میں لفظ " ان شاءت " اھم ھے کہ عورت اگر چاھے ،نہ چاھے تو کوئی جبر نہیں ،
اس کے بعد ابن مفلح کہتے ھیں کہ ھمارا اور شوافع نیز دیگر فقہاء( مالکیہ و احناف ) کا اس پر اتفاق ھے کہ " ان النظر الی الاجنبیہ جائز من غیر شھوۃ ولا خلوہ ، فلا ینبغی الانکار ،، کہ اجنبی عورت کے چہرے کو بلا شہوت اور بلا خلوت دیکھنا جائز ھے اور عورت کو نکیر نہیں کی جائے گی ،، یعنی چہرہ کھولنے پر اس کو ملامت نہیں کی جائے گی ،،
و عن عائشۃ عن اسمآء بنت ابی بکر دخلت علٰی رسول اللّٰہ ﷺوعلیہا ثیاب رقاق فاعرض عنھا وقال یا اسماء انّ المراۃ اذا بلغت المحیض لن یصلح ان یریٰ منھا الّا ھذا و ھذا و اشار الی وجھہ وکفّیہ ‘‘ (ابو داؤد) ام المومنین عائشہؓ فرماتی ھیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ پتلے کپڑے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ نے ان کی طرف سے منہ موڑ لیا اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ھو جائے تو اس کے لئے ٹھیک نہیں کہ اس کے چہرے کی ٹکیہ اورہتھیلیوں کے سوا کچھ اور کسی مرد کو نظر آئے ،، اور آپ نے ھاتھ کانوں کے آگے سے لے کر چہرے کی ٹکیہ کے دونوں اطراف اپنے ھاتھ رکھ کر اور پھر ھاتھوں کی گٹھیا کو پکڑ کر دکھایا " الا ھذا و ھذٰا " بس یہی پردہ ھے ،، جو عورت پر واجب ھے ،پھر حج پر احرام کی حالت مین عملاً کرا کر بھی دکھا دیا ،، ابن المفلح امام احمد کی فقہ کے فقیہہ ھیں ان کو امام احمد فرمایا کرتے تھے کہ تم ابن مفلح نہیں ھو بلکہ خود مفلح ھو ، اور ابن قیم ان کے بارے میں فرماتے ھیں کہ اس آسمان کے گنبد کے نیچے کوئی شخص امام احمد کی فقہ کا ابن مفلح سے بڑھ کر واقف نہیں ،، ان ابن مفلح سے سوال کیا گیا کہ " رستے میں چہرہ کھلا رکھ کر چلنے والی عورتوں کو ملامت کی جا سکتی ھے اور چہرہ کھولنے سے منع کیا جا سکتا ھے ؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ ،، قاضی عیاض نے جریرؓ سے جو حدیث نقل کی ھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اگر عورت کے چہرے پر اچانک نظر پڑ جائے تو بندہ کیا کرے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ بس اپنی نظر ھٹا لے ( مسلم ) اس سے علماء نے استدلال کیا ھے کہ " فی ھذا الحدیث حجۃۤ علی انہ لا یجب علی المراۃ ان تستر وجہھا فی طریقھا ، و انما ذالک سنۃ مستحبہ لھا ،، ویجب علی الرجل غض البصر عنھا فی جمیع الاحوال ،،، الا لغرضٍ شرعی ) اس حدیث مین حجت تمام ھو گئ ھے کہ عورت پر رستہ چلتے چہرہ چھپانا واجب نہیں ھے بلکہ مستحب سنت کی قسم سے ھے ،، مگر مرد پر نظر پھیر لینا ھر حال میں واجب کیا گیا ھے ،، سوائے اس کے کہ شعرعی عذر اس عورت کو دیکھنے کا موجود ھو یعنی شادی کے لئے دیکھنا یا ڈاکٹر کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ ( مگر مردوں نے نہایت چالاکی سے اپنا فرض بھی عورت پر تھوپ دیا ھے تا کہ خود جی بھر کر اس کا تھارولی اسکین فرما سکیں ) امام نووی نے مسلم کی شرح میں اس جواب کو کوٹ کرنے کے بعد اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا یعنی اس رائے سے اتفاق کیا ھے ،،
(یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ انٰہُ وَلَکِنْ اِذا دُعِیْتُمْ فَادْ خُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ اِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَےَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْءَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِنَّ وَمَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْآ اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا اِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمًا )۳۳:۵۳:
عض لوگوں کے نزدیک عورت سر سے لے کر پاؤں تک پوری ستر ہے لہذا اجنبی مرد کے سامنے، اس کے لیے ہاتھوں اور چہرے سمیت مکمل پردہ کرنا لازم ہے ۔ یعنی عورت کے لیے نقاب فرض ہے۔ اگرچہ یہ ایک اسلامی رائے ہے ، تاہم یہ کمزور ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عورت سر سے لے کر پاؤں تک ستر ہے سوائے ہاتھوں اور چہرے کے۔ یعنی اجتماعی زندگی میں اس کے لیے ہاتھوں اور چہرے کا پردہ کرنا فرض نہیں بلکہ مباح ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے گروہ کے دلائل پیش کیے جائیں ، ان پر بحث ہو اور بالآخر صحیح رائے کے دلائل کو ظاہر کیا جائے۔ نقاب کی فرضیت کے قائلین سورۃ احزاب کی دو آیات سے استدلال کرتے ہیں، پہلی آیت نمبر ۳۳: (اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو) ان کا کہنا ہے کہ یہاں عورتوں کو گھر میں رہنے کا حکم ان کے مکمل پردہ کی دلیل ہے۔ دوسری آیت نمبر ۵۳: ( اور جب تم ان سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو) ان کا کہنا ہے کہ یہاں مردوں کو عورتوں سے، ضرورت کے تحت، پردہ کے پیچھے سے کوئی چیز طلب کرنے کا حکم ہوا ہے۔ لہذا ان دونوں آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا چہرہ بھی اس کے باقی جسم کی طرح ستر ہے اور اس کا پردہ لازم ہے۔ ان آیات سے یہ استدلال غلط ہے ، اس لیے کہ یہ آیات عام نہیں بلکہ خاص ہیں ۔ یہ ان آیات کے سیاق سے واضح ہے: ( یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍمِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقِیْنَ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذی فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًامَّعْرُوْفًا ، وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھَلَیَّۃِ الْاُوْلٰی وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا )۳۳۔۳۲:۳۳ (اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدہ کے مطابق کلام کرو ، اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو، اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ ہر قسم کی گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے)
جہاں تک دوسری آیت کی بات ہے تو جان لینا چاہئے کہ اس کا سببِ نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو حضرت عمرؓ کا ہاتھ حضرت عائشہؓ کے ہاتھ سے لگ گیا ، جس پر حضرت عمرؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ رسول اللہ ﷺکی بیویوں کا غیر مردوں سے پردہ ہونا چاہئے اور اس موقع پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ اس سے ہمارے موقف کو مزید تقویت ملتی ہے۔ نیز آیت میں مستعمل ضمیر’ھُنَّ ‘ خاص امہات الموممنین سے منضبط ہے ۔ علاوہ ازیں آیت میں یہ علت موجود ہے وَمَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ(اور نہ تمہیں جائز ہے کہ رسول اللہ کو تکلیف دو)۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ا مہات الموممنین کے حجاب (پردہ) کی وجہ رسول اللہ کی تکلیف ہے یعنی جب صحابہ کرام بغیر پردہ کے ازواج مطہرات سے مخاطب ہوتے ہیں تو اس بات سے حضور ﷺ کو تکلیف پہنچتی ہے، تو غالبًا ہر جہت سے یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ یہ آیات خاص ہیں لہذا ان کو عام عورتوں پر استعمال ہرگز نہیں کیا جائیگا۔ تو حقیقت میں یہ آیات قائلینِ نقاب کے حق میں نہیں بلکہ ان کے موقف کے خلاف دلائل ہیں!
(اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو،وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو ، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بیانِ حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا ،جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردہ کے پیچھے سے طلب کرو تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے،نہ تمہیں جائزہے کہ رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو ،یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے) ان دونوں آیات کا عام مسلمان عورتوں پر اطلاق نہیں ہوسکتا بلکہ یہ امہات المومنین کے لیے خاص ہیں۔ پہلی آیت میں یہ بات آغاز میں ہی ظاہر ہے جب اللہ نے ان سے مخاطب ہوکر کہا یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍمِّنَ النِّسَآء۔ یعنی اے بنی کی بیویو تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو! اس قول سے زیادہ اور واضح کیا ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور عام عورتوں کے مابین فرق کیا ہے۔ اس بات کی مزید تصدیق آیت کے اس آخری حصہ سے ہوتی ہے اِنَّمَا یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا (اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ ہر قسم کی گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کر دے) ظاہر ہے کہ یہاں اَھْلَ الْبَیْتِ سے مراد سب عورتیں نہیں بلکہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات ہیں۔ نیز اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ ان کو گندگی سے پاک کرنے کی وجہ اور انھیں اس بات کی یادہانی کرا رہا ہے کہ ان کے گھر میں وحی نازل ہوتی ہے، تو بھلا یہ دوسری عورتوں کے مانند کیسے ہوسکتی ہیں! ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( وَاِذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِی بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ )۳۴:۳۳ (اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو)
یہ جان لینا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں عورتیں عام طور پر باہر، بازار میں اور تجارت وغیرہ کرتے ہوئے اپنے چہرے اور ہاتھ ظاہر کیا کرتی تھیں اور اس پر رسول اللہ ﷺ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ ایسی کئی روایات صحیح احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
اس کے علاوہ یہ حضرات سنن ابو داؤد کی اس حدیث کو بھی بحیثیتِ دلیل استعمال کرتے ہیں جس میں ہے کہ حضرت الفضلؓ ابن عباس رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار تھے کہ بنی خاتم سے ایک عورت حکم دریافت کرنے کے لیے آپؐ کے پاس آئی، تو حضرت فضلؓ اس عورت کی طرف دیکھنے لگ گئے اور وہ عورت ان کی طرف۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت کا چہرہ دوسری طرف کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں پر نقاب فرض ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ حضرت الفضلؓ کا چہرہ دوسری طرف کیوں کرتے؟غالبًا یہ حدیث نقاب کی فرضیت پر نہیں بلکہ اس کے مباح ہونے پر دلالت کررہی ہے! یہ اس لیے کہ حکم پوچھتے وقت وہ عورت بغیر نقاب کے تھی اور رسول اللہ ﷺ خود اس کو دیکھ رہے تھے۔ حضور ﷺ نے اس عورت کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنا چہرہ ڈھانپ لے ، اگر یہ فرض ہوتا تو یہ نا ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس معاملہ میں خاموش رہتے ، کیونکہ یہ بات ایک نبی کی عصمت کے خلاف ہے۔ اس کے بجائے آپؐ نے حضرت فضلؓ کا چہرہ دوسری جانب کردیا او ر بعد میں جب اس کی وجہ حضرت علیؓ نے پوچھی تو آپؐ نے فرمایا: ’’میں نے ایک نوجوان عورت اور ایک نوجوان مرد کو ایسی حالت میں پایا کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں شیطان انہیں متاثر نہ کرے۔‘‘ یعنی حضور ﷺ نے اس وجہ سے حضرت فضلؓ کا چہرہ دوسری طرف کیا کیونکہ ان کی نظر میں حسرت و تمنّا ظاہر ہورہی تھی ، جوکہ حرام ہے، اور نہ کہ محض اس وجہ سے کہ وہ عورت کی طرف دیکھ رہے تھے! نبئ کریم ﷺ کو جس عورت نے اپنا آپ بطور ہبہ پیش کیا تھا وہ مجلس میں آئی تھی اور نبئ کریم ﷺ سیمت تمام مجمعے نے اس کو دیکھا تھا اور اس کا چہرہ کھلا تھا ،، حضرت اسماءﷺ نبئ کریم ﷺ سے چہرے کا پردہ نہیں کرتی تھیں اور یہ رسول اللہ ﷺ کی اس تصریح کے مطابق تھا کہ اے اسماء عورت جب حدِ بلوغت کو پہنچے تو اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آنی چاہیئے،، 1-اسی طرح یہ حضرات جو حدیث بیان کرتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو کہا کہ ابن ام مکتوم نابینا ھے تم دونوں نابینا تو نہیں ھو ،، یہ بھی ضعیف حدیث ھے، ( الالبانی ) 2- حضرت فاطمہ سے پوچھا گیا کہ بہترین عورت کون ھے تو آپؓ نے جواب دیا کہ جو مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ مرد ان کو دیکھیں ، یہ بھی ضعیف حدیث ھے ( الالبانی 6202) 3- جو عورت بھی اپنے شوھر کے گھر کے علاوہ کہیں دوپٹہ اتارتی ھے تو اپنے اور اپنے رب کے درمیان سے ستر ھٹا دیتی ھے ( ضعیفہ الالبانی 6216) 4- مرد کا مرد سے ستر اور عورت کا عورت سے ستر اسی طرح ھے جس طرح عورت کا مرد سے ستر ( ضعیفہ 3923) 5- عورتیں بے وقوف ھیں سوائے ان کے کہ جو اپنے قیم کی اطاعت کرتی ھیں ( ضعیفہ 6051) 6- مرد تب ھلاک ھوتا ھے جب وہ عورت کی بات مانتا ھے ( ضعیفہ-436 ) 7- دنیا اور عورت سے بچو ، یہ دونوں ابلیس کے پھندے ھیں اور متقیوں کے لئے عورت سے بڑھ کر کوئی پھندہ نہیں ( موضوع ،، الضعیفہ 2065) 8- پہلی نظر خطا ھے ،دوسری ارادہ ھے اور تیسری ھلاک کرنے والی ھے ، مرد کا عورت کے محاسن کو دیکھنا ابلیس کے زھریلے تیروں میں سے ھے ( موضوع ،، ضعیفہ 5970) 9- رسول اللہ ﷺ نے امرد جوان جس کی ابھی مونچھیں نہ پھوٹی ھوں اس کی طرف غور سے دیکھنا منع کیا ھے ،، موضوع ( الضعیفہ- 5969) وہ دلائل جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا چہرا اور اس کے ہاتھ ستر میں شامل نہیں ملاحظہ ہوں:
دوسرا یہ کہ وسیلہ جس حرام فعل کا باعث بنا ، اس کی حرمت کے بارے میں نص موجود ہو ، نہ کہ عقل نے اسے حرام قرار دیا ہو۔ یہاںیہ دونوں شرائط پوری نہیں ہورہیں کیونکہ نہ تو چہرے کی بے نقابی یقینی طور پر حرام( فتنے )کا سبب بنتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شرعی نص موجود ہے جو فتنے کے خوف کو حرام قرار دے! یہ اس لیے کہ وہ لوگ فتنے کے خوف کو فرضیتِ نقاب کی وجہ بتاتے ہیں نہ کہ بذاتِ خود فتنے کے وقوع کو! یہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ کسی اجنبی عورت/مرد کی طرف شہوانی نظروں سے دیکھنا حرام ہے، اس شخص کے لیے جو ایسا کرے جبکہ جس کی طرف دیکھا جا رہا ہے، اس عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا لازم نہیں ٹھہرے گا بلکہ یہ مباح ہی رہے گا ، جیسا کہ نصوص سے ثابت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ نے مذکورہ حدیث شریف میں حضرت الفضلؓ کا چہرا دوسری سمت میں کردیا مگر جس عورت کی طرف وہ دیکھ رہے تھے، اس سے نقاب (چہرے کا پردہ) کا مطالبہ نہیں فرمایا۔
اس کی ایک دلیل پہلی مذکورہ آیت ہے (۳۱:۲۴) جس میں اللہ مسلمان عورتوں کو یہ حکم دے رہا ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ’اِلَّامَاظَہَرَ‘ یعنی سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرما یا ہے کہ اس سے مراد ہاتھ اور چہرا ہے۔ (ترمذی) اور عطا کی روایت میں حضرت عائشہ کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ (تفسیر مظہری) اگر واقعتا پوری عورت ستر ہوتی تو اس آیتِ مبارکہ میں رخصت دینے کا کیا مقصد ہے ؟! اسی لیے امام قرطبیؒ ، امام طبریؒ اور امام زمخشریؒ نے اپنی اپنی تفسیر میں اس آیت سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیا ہے۔ نیز حدیث شریف میں ہے: ’’ و عن عائشۃ عن اسمآء بنت ابی بکر دخلت علٰی رسول اللّٰہ ﷺوعلیہا ثیاب رقاق فاعرض عنھا وقال یا اسماء انّ المراۃ اذا بلغت المحیض لن یصلح ان یریٰ منھا الّا ھذا و ھذا و اشار الی وجھہ وکفّیہ ‘‘ (ابو داؤد) (حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک دن اسماء بنت ابوبکرؓ رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں اس حالت میں آئیں کہ ان کے بدن پر باریک کپڑے تھے ، آپؐ نے یہ دیکھ کر ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اے اسماء! عورت جب ایامِ حیض کو پہنچ جائے ( یعنی جب وہ بالغ ہوجائے) تو یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ اس کے جسم کا کوئی عضو دیکھا جائے علاوہ اس کے اور اس کے ، یہ کہہ کر آپؐ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔ ) دیگر احادیث سمیت، اس میں بھی رسول اللہ ﷺ نے عورت کے ہاتھوں اور اس کے چہرے کو ستر میں شامل نہیں فرمایا۔ جہاں تک ان فقہا کا تعلق ہے جنھوں نے فتنے کے خوف کی بنا پر نقاب کو فرض ٹھہرایا ہے تو یہ کئی وجوہ سے بے بنیاد ہے ! : ۱) پہلی یہ کہ فتنے کے خوف کی وجہ سے عورت کے نقاب کی فرضیت نہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی اجماع الصّحابہ یا قیاس سے۔ اور چونکہ شارع کا خطاب صرف انہی سے سمجھا جا سکتا ہے، تو اس رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اسے حکمِ شرعی مانا جائگا۔ بلکہ اس کے برعکس شرعی نصوص سے مطلقًا ، بغیر کسی قید یا تخصیص کے، چہرے کی بے نقابی کی اباحت ثابت ہے! لہذا فرضیتِ نقاب والی رائے ایک ایسی رائے ہے جو اللہ کی جائز کی ہوئی بات کو حرام قرار دے رہی ہے! اور اس بات کو ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا!۲) دوسری یہ کہ یہاں’ فتنے کے خوف ‘کو علت بنایا گیا ہے۔ جبکہ علت ، خواہ وہ صراحتًا ہو یا دلالتًا ، استنباطًا ہو یا قیاسًا، یہاں نہیں پائی گئی۔ دوسرے لفظوں میں یہ علت کسی شرعی نص میں موجود نہیں یعنی یہ شرعی علت نہیں ہے ۔ غالبًا یہ ایک عقلی علت ہے جبکہ نصوص سے حکم اخذ کرتے وقت صرف علتِ شرعی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اس معاملے میں علتِ عقلی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ! ۳) تیسری یہ کہ شرعی قائدے الوسیلہ الی الحرام محرمہ (حرام کا وسیلہ بھی حرام ہے) کا اطلاق اس معاملہ پر نہیں ہو سکتا ۔ وہ اس لیے کہ اس قاعدے کی دو شرائط ہیں : ایک تو یہ کہ یہ فعل غالب گمان کے ساتھ حرام تک پہنچائے اور یقینی طور پر حرام کا سبب بنے یعنی اس کا نتیجہ ہر صورت میں حرام ہی نکلے اور اس امر سے تجاوز نہ ہوپائے۔ نیز اگر عورت مرد کے لئے فتنہ ھے اور مرد کے ایمان کو بچانے کے لئے عورت کا چہرہ چھپانا ضروری ھے تو خود مرد عورت کے لئے نو گنا زیادہ فتنہ ھے خود اس کو نقاب کیوں نہ پہنا دیا جائے ، کیا اللہ پاک کو عورتوں کے ایمان کی فکر نہیں ؟ یا عورت میں ایمان ھوتا ھی نہیں ؟ اللہ عادل ھے اور دونوں اللہ کی تخلیق ھیں اور دونوں معاشرے کا حصہ ھیں اور 80 فیصد دیہاتی آبادی میں عورت مرد سے زیادہ نہیں تو کم مشقت بھی نہیں کرتی ، ذرا ان عورتوں کا چہرہ ڈھک کر یا شٹل کاک برقع پہنا کر کھیتوں میں کام کروا کر دیکھئے ، افریقی مسلمان ممالک میں تو اور بری حالت ھے ،،
کچھ ریفرینسز انقلاب ڈاٹ نیٹ سے لئے گئے ھیں ،،
آیت جلباب سے چہرہ چھپانا ثابت ھی نہیں ھوتا ،، ابن عباسؓ کا جو قول نقل کیا جاتا ھے اور جس کو اکثر استعمال کیا جاتا ھے کہ اللہ نے عورتوں کو حکم دیا ھے کہ اگر وہ باھر جائیں تو اپنے چہرے چھپا کر جائیں صرف ایک آنکھ ننگی رکھنے کی اجازت ھے ،، یہ ضعیف قول ھے اور جس جگہ یہ ضعیف قول ھے اسی جگہ ( الدر المثور) میں ھی پایا جاتا ھے جس میں ابن جریر اور ابن مردویہ کی روایت میں بتایا گیا کہ ابن عباس نے فرمایا کہ یدنین علیھن من جلابیبھن کا مطلب ھے " و ادناء الجلبابِ ان تقنع و تشد علی جبینھا ، و قال الآخرون بل امرن ان یشددن جلابیبھن علی جباھھن،، یعنی ماتھے کو مضبوطی کے ساتھ چادر میں جکڑ لو، ھمارے یہاں یہ مقصد اسکارف اور پھر نیچے عبایہ جلباب کے طور پر کرتا ھے ،، جبکہ ایران میں وہ جلباب بالکل ایک آئیڈیل صورت اختیار کر لیتی ھے ،یہی مقصود شریعت ھے مذکورہ دلائل کی روشنی میں علماء کے چند اقوال مندرجہ ذیل ہیں: مذکورہ آیت (اِلَّامَاظَہَر)کے بارے میں حنفی مجتہد امام ابوبکر الجصاصؒ کہتے ہیں: ’’ ہمارے اصحاب (حنفیہ)کا قول ہے کہ اس سے چہرہ اور کفِ دست (ہاتھ)مراد ہیں، اس لیے کہ سرمہ چہرے کی زینت ہے اور مہندی نیز انگوٹھی ہتھیلی کی زینت ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے چہرے اور ہتھیلی کی زینت پر نظر ڈالنے کی اجازت دے دی ، تو یہ بات اس امر کی بھی مقتضی ہے کہ چہرے اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے کی بھی اباحت ہو۔ چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں عورت کے ستر میں شامل نہیں ہیں۔‘‘ (احکام القراٰن) امام الکاسانی، ؒ جن کا تعلق حنفی مسلک سے ہے، مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ اجنبی مرد کے لیے اجنبی عورت کے تمام جسم کو، ماسوا چہرے اور دونوں ہاتھوں کے، دیکھنا جائز نہیں ہے۔ (اس آیت میں) زینت سے مراداس کے مقامات زینت ہیں اور زینت کے ظاہری مقامات چہرہ اور دونوں ہاتھ ہیں۔ لہذا سرمہ چہرے کی اور انگوٹھی ہاتھ کی زینت ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ آزاد عورت کو بیع وشراء(خریدوفروخت) اور اشیاء لینے دینے کے لیے اس کی ضرورت ہے اور عام طور پر چہرہ اور دونوں ہاتھوں کے کھولے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ، لہذا اس کے لیے ان کو کھولنے کی اجازت ہے ، یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔‘‘ (بدائع الصّنائع) امام شوکانیؒ کہتے ہیں : ’’ پھر آزاد عورت کے ستر یعنی پرد ے کے بارے میں ….بعض فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے سوا، عورت کو باقی تمام جسم پردہ میں رکھنا چاہئے اور یہی جمہور فقہاء کا مسلک ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘ (نیل الاوطار) قاضی ثنااللہؒ کہتے ہیں: ’’ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ ، اور امام شافعیؒ اور امام احمد ؒ کے نزدیک چہرہ اور پہنچے تک دونوں ہاتھ حکمِ ستر سے مستثنیٰ ہیں۔ (تفسیرالمظھری) ابن رشد کہتے ہیں : ’’ فقہاء کی اکثریت اس بات پر ہیں کہ (عورت) کا پورا جسم ستر ہے ، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔‘‘(بدایۃ المجتھد) امام الجزیری ؒ ، جوکہ چاروں مسالک کے ماہر ہیں ، کہتے ہیں: ’’ اگر کوئی اجنبی مرد یا غیر مسلم عورت موجود ہو تو ہاتھوں اور چہرے کے سوا عورت کا تمام جسم ستر ہے۔ یہ دونوں اعضا ستر میں داخل نہیں ہیں۔‘‘ (کتاب الفقہ المذاھب علی الاربعہ ) شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کہتے ہیں: ’’پس خدا تعالیٰ نے ان اعضا کے کھولنے کی اجازت دی ہے جن سے شناخت ہوسکتی ہے یعنی منہ (چہرہ) اور اکثر جن اعضا سے کام کاج ہوتا ہے اور وہ دونوں ہاتھ ہیں اور ان کے سوا سب اعضا کا ستر واجب ہے۔‘‘ (حجۃ اللّٰہ البالغہ) علامہ تقی الدین النبھانی ؒ نے اپنی کتاب ’النظام الاجتماعی فی الاسلام‘ میں ایک مفصل بحث سے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت کے لیے نقاب فرض نہیں ہے۔
اگرچہ یہ بحث چند احکام کے بارے میں ہے تاہم یہ بہت اہم ہے کیونکہ ان بعض احکام سے معاشرے میں اسلامی طرزِ زندگی کا تعین ہوتا ہے اور خلافت میں معاشرتی زندگی کی نشاندہی بھی۔





Sunday, February 7, 2016

" آج کچھ درد میرے دل میں سوا ھوتا ھے " قسط - 4

در سلسلہ
 " آج کچھ درد میرے دل میں سوا ھوتا ھے "
 قسط - 4

طریقۃ واردات ،،،
ھم جب برآمدگی کے گواہ کو گواھی پڑھاتے ھیں تو اس کو بڑی اچھی طرح سمجھاتے ھیں کہ اس نے یہ کہنا ھے کہ " جناب اے ایس آئی صاحب نے فائر شدہ کارتوس موقع واردات سے اٹھائے اور ان کو سیل کیا اور محفوظ کر لیا " یعنی آپ نے کارتوس سیل ھونا اپنے بیان میں کہنا ھے تو گواھی کارآمد ھونی ھے ورنہ گواھی مسترد ھو جائے گی ،، اگر گواہ اپنے بیان میں Seal کرانا بھول جائے تو ،، پھر ھم اس کو جرح کے دوران وھی کہنے کا طریقہ بتاتے ھیں کہ ، جب میں تم سے پوچھوں کہ تفتیشی نے تمہارے سامنے کارتوس اٹھائے تھے؟ تو تم نے میرے مینشن کیئے بغیر خود سے کہہ دینا ھے کہ " جی جناب نہ صرف اٹھائے تھے بلکہ میرے سامنے سیل بھی کیئے تھے،، مگر جج بھی وکیل رہ کر آیا ھوتا ھے اسے معلوم ھے کہ اصل بیان الگ چیز ھے اور جرح الگ چیز ھے عدالت فیصلہ گواھی پر کرتی ھے ،،
حدیث بنانے والے جب ادھوری حدیث بنا کر پھنس جاتے ھیں اور اس کے نتیجے میں پیدا ھونے والے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تھے ، اسی حدیث کو اب کسی اور موضوع کے نام پر دوسری جگہ بیان کرتے ھیں جس مین پچھلی حدیث کے Blanks کو Fill کرنے کی کوشش کرتے ھیں ، اس طرح ایک ھی بات تین چار حدیثوں میں کچھ سے کچھ ھو جاتی ھے ،،،
نیز بعد والے جب ایک ھی موضوع پر 8 ، یا 10 حدیثیں دیکھ لیتے ھیں تو پریشان ھو کر کہتے ھیں کہ واقعہ اتنے طرق سے روایت ھو رھا ھے کہ تواتر کو پہنچ گیا لہذا کچھ ناں کچھ سچائی تو اس میں ضرور ھے یوں کسی بھی جھوٹ کو کچھ ناں کچھ کے نام سے فلوٹ کیا جا سکتا ھے
نبئ کریم ﷺ کی ساری شادیوں کا ایک دردناک بیک گراؤنڈ ھے اور ان میں سے ھر شادی کا ایک قصہ ھے جس مین ایک سلیم الفطرت انسان کا دل پکار پکار کر کہنے لگ جاتا ھے کہ کاش اللہ کے رسول ﷺ مداخلت کر کے اس خاتون سے شادی کر لیں ، اے کاش ،، اور الحمد للہ نبئ کریم ﷺ بالکل ایک سلیم الفطرت انسان کے ضمیر کی آواز کے مطابق عمل کرتے ھین ،، مگر نبئ کریم ﷺ کے وصال سے پہلے اور متصل پہلے مرض الوفات کے دوران ھی دو شادیاں اور ایک طلاق کچھ اس شان سے کرائی گئ ھے کہ سوائے یہ کہنے کے اور کوئی چارہ کار نہیں رھتا کہ منافقین نبئ کریم ﷺ کی وفات کے بعد وہ وار کرنے میں کامیاب ھو گئے جسے وہ آپ کی زندگی میں ھزار بار کوشش کر کے بھی نہیں کر سکے تھے ،،
میرا خدا گواہ ھے مجھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے نہ کوئی عداوت ھے اور نہ مجھے ان کی نیت پر کوئی شک و شبہ ھے اور نہ میں ان کی مساعی کا منکر ھوں ،، مجھے ان پر ترس آتا ھے کہ کس طرح ایک سیدھے سادے بندے کو نشانہ بنایا گیا ھے،، جب امام بخاری حدیث کے میدان میں تشریف لائے تو میدانِ تزویر سج چکا تھا ،، ثقہ و غیر ثقہ طے ھو چکے تھے اور منافقین کی ٹولی اپنے بندے ٹھیک مورچوں پر بٹھانے میں کامیاب ھو چکی تھی ،، امام بخاری مجبور تھے کہ وہ سابقہ لوگوں کے ثقہ کو ثقہ مانیں ،، امام بخاریؒ نے اصول بنایا تھا کہ جب تک راوی کی اپنے شیخ سے ملاقات ثابت نہ ھو تب تک اس کی روایت نہیں لینی ،، یعنی مرسل روایت نہیں لینی ،مگر محدثین میں اس پر اتفاق ھونے کے باوجود کہ ابن شھاب زھری کی حضرت عروہ ابن زبیرؓ سے ملاقات ثابت نہیں ، وہ ان کی بیسیوں مرسل راویتیں اپنی کتاب میں لینے پر مجبور ھو گئے کیونکہ زھری کی علمی دھاک مسلم ھو چکی تھی ،،،
امام مسلم نے تو اصول ھی یہ بنایا تھا کہ بندہ ھم عصر ھونا چاھئے تو ھم اس کی راویت اس گمان پر لے لیں گے کہ ملاقات ھوئی ھو گی ،، اس وقت جو 20 کروڑ پاکستانی ھیں جو کہ پرویز مشرف کے ھم عصر ھیں وہ دعوی کر سکتے ھیں کہ ان کی پرویز مشرف سے ملاقات ھوئی تھی اور اس نے یہ یہ راز ان کے سامنے اگلے تھے اور کارگل کی ساری اسٹریٹیجی ان کو کھول کر سمجھائی تھی اور شھید ھونے والے پاکستانیوں کے نام بھی بتائے تھے ،کم ازکم پنڈی اسلام آباد کے لوگ تو 100 فیصد یقین کے ساتھ یہ دعوی کر سکتے ھیں کیونکہ وہ ایک ھی شھر میں رھے ھیں ،،،،،،،
نبئ کریم ﷺ کے وصال سے متصل پہلے نازل ھونے والی سورت توبہ میں منافقین کی چالیں دشمنیاں اور نبئ پاکﷺ کو شھید کرنے کی کوشش ، استھزاء ، نبئ کو صرف " اذن " کہہ کر پکارنا کہ صرف کان ھی کان ھیں ان کے درمیان عقل نام کی چیز نہیں معاذاللہ ثمہ معاذاللہ ،، مسلمانوں کی غربت کا مذاق اڑانا ،، پھر اچانک نبئ کریم ﷺ کے وصال کے ساتھ ھی منافقین کے تذکرے یوں غائب ھوئے گویا منافقین کو زمین نگ گئ یا آسمان کھا گیا ،، ،، حقیقت یہ ھے کہ یہ منافقین اس قدر ماھر تھے کہ ان کو عام مسلمان تو دور کی بات خود نبئ کریم ﷺ نہیں پہچان سکتے تھے ، اللہ پاک نے بیان کیا ھے کہ مدینے کے اندر اور مدینے کے باھر اعراب نفاق سے بھرے پڑے ھیں " مردوا علی النفاق ، لا تعلمھم ،نحن نعلمھم ،، " یہ لوگ نفاق کے ماھر ھو چکے ھیں آپ بھی ان کو نہیں پہچان سکتے ھم ھی ان کو جانتے ھین " چنانچہ جو لوگ نبی کریم ﷺ کو کامیابی سے دھوکا دے لیتے تھے وہ اگر امام بخاری کے لئے ایسا دام ھمرنگ زمیں بچھا گئے اور امام بخاری ان سے دھوکا کھا گئے تو اس مین تعجب کی کیا بات ھے ؟ کیا امام بخاری نبئ کریم ﷺ سے زیادہ صاحب بصیرت اور عرب کلچر سے واقف تھے ؟؟ ایک سیدھا سادا دیہاتی پہاڑوں سے اتر کر آتا ھے اور لوگوں کی نمازیں روزے دیکھ کر دھوکہ کھا جاتا ھے تو کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ ان کو تو بنے بنائے تقوے کے بت پکڑائے گئے ھیں کہ فلاں ثقہ ھے اور فلاں امیر المومنین فی الحدیث ھے ،،
خیر نبئ کریم ﷺ کو پتہ تھا کہ آپ ﷺ کی وفات بالکل قریب ھے – جو ھستی میدانِ عرفات میں یہ اعلان کر کے آئی تھی کہ " لوگو میری باتیں غور سے سننا اور میرے عمل کو غور سے دیکھنا ،مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو کہ اس کے بعد میں نے اور تم نے اس میدان میں کبھی نہیں ملنا ، اس کے بعد پورا حج ، رمئِ جمار ، طوافِ کعبہ ،صفا اور مروہ سب کچھ اونٹںی پر ھی کیا تا کہ امت ایک دو لوگوں سے نہ سنے سارا مجمع مجھے حج کرتے ھوئے ، حجر اسود کو چوم کر طواف شروع کرتے اور باقی چھ چکروں میں صرف اشارے سے استلام کرتے ھوئے دیکھ لے ،، رسول اللہ ﷺ چاھتے تو 7 کے 7 چکروں میں حجرِ اسود کو چوم سکتے تھے مگر جانتے تھے کہ پھر امت میں 7 چکروں میں حجرِ اسود کو چوم کر طواف کر فرض سمجھ لیا جائے گا اور امت کچل جائے گی ،، جس نبی ﷺ نے بیٹی کو بھی بتا دیا کہ میرے وصال کے بعد سب سے پہلے تم مجھے آ کر ملو گی ، جس نبی ﷺ نے ازواج کو بتا دیا کہ تم میں لمبے ھاتھ والی سب سے پہلے آ کر مجھے ملے گی ، ازاوجؓ ھاتھ ملا ملا کر ناپتی رھیں مگر پتہ چلا لمبے ھاتھ سے مراد زیادہ صدقہ خیرات کرنے والی مراد تھی ،، وہ نبیﷺ جس پر مرض الوفات نے پنجے جما لیئے ھیں اور کندھوں کا سہارا لے کر نماز کے لئے جاتے ھیں ،،یہ انہی کی دو شادیاں اور ایک طلاق ایک ھی دن اور چند گھنٹوں کے اندر ھوتی ھیں ، اور کس طرح ھوتی ھیں ،اللہ کی قسم میرے پاس الفاظ ختم ھو گئے ھیں اس کو بیان کرنے کے لئے ،، اللہ کے بندو ،یہ کیچڑ کس نبی ﷺ پر اچھالا گیا ھے ؟ جس پر زندگی بھر اور پھر پوری دعوت اور نزولِ قرآن کے دوران کافروں کے ھر خسیس حملے کے جواب میں اللہ نے اپنے نبی ﷺ کے کردار پر حرف نہیں آنے دیا ،،کافروں نے استھزاء کیا تو اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی ﷺ تم بھی تمسخر اڑا لو ،، فرمایا " ویسخرون من الذین آمنوا ،،سخرا للہ منھم ،، اللہ ان سے تمسخر کرتا ھے ( رسول ﷺ نہیں ) یخادعون اللہ والذین آمنوا ،، یہ اللہ کو اور مومنوں کو دھوکہ دیتے ھیں تو جواب میں فرمایا " اللہ خادعھم " اللہ ان کو دھوکا دیتا ھے ( رسول ان کو دھوکا نہیں دیتا ) تباً لک جب کہا ابولہب نے تو اللہ نے فرمایا تبت یدا ابی لھبٍ و تب ،، ٹوٹیں ھاتھ ابولہب کے اور ٹوٹ گئے ،،میرے نبی ﷺ کے کیوں ٹوٹیں ،، یہ نہیں کہا کہ اے نبی ﷺ آپ بھی گالی دے لو ،، آپ بھی بدعا دے لو ،، آپ بھی ان کو دم کٹا اور بے نسل کہہ لے ،،خود فرمایا " ان شانئک ھو الابتر" آپ دشمن ھی دم کٹا اور بے نسل ھے کہ اس کا نام لیوا کوئی نہیں ھو گا ، ﻭﺍﺫﺍ ﻗﯿﻞ ﻟﮭﻢ ﺁﻣﻨﻮﺍ ﮐﻤﺎﺁﻣﻦ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﺍﻧﺆﻣﻦ ﮐﻤﺎ ﺁﻣﻦ ﺍﻟﺴﻔﮭﺎﺀ ﺍﻻ ﺍﻧﮭﻢ ﮬﻢ ﺍﻟﺴﻔﮭﺎﺀ ( ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ ۱۳ ) نبی ﷺ کو ان کافروں کی بے وقوف کہنے تک کی زحمت نہیں دی ،خود سفھاء کا لقب دے دیا ، کہ میرا نبی برے اخلاق سے داغدار نہ کیا جائے ،پورے قرآن میں دیکھ لو اللہ پاک نبی پاک ﷺ کے اخلاق کی قسمیں کھاتا ھے ، گالی کا جواب خود دیتا ھے ، بد دعا کا جواب خود دیتا ھے ،، مگر نبی ﷺ کے دامن پر گالی اور بد دعا کا دھبہ نہیں لگنے دیتا کیونکہ یہ کردار ،یہ سیرت ،یہ ھستی قیامت تک اس انسانیت پر اللہ کی حجت اور دعوت و تبلیغ کا محور ھے ،،، 
حضرت عیسی علیہ السلام نے چور کو رنگے ھاتھوں پکڑ لیا ،، اس نے اللہ کی قسم کھا لی ،، آپ نے فرمایا میں ایمان لایا اپنے اللہ پر اور جھٹلاتا ھوں اپنی آنکھوں کو ،،، اللہ کا نام سامنے آ جانے پر یہ نہیں کہا کہ اللہ کو رھنے دو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے ،، اللہ کے بندو حضرت عیسی علیہ السلام اپنی آنکھوں کو جھٹلا دیتے ھیں ، یہ کیسا ایمان بالرسالت ھے کہ ھر عیب تمہارے نبی ﷺ میں تمہارے لٹریچر میں سے برآمد کیا جا رھا ھے اور آپ آمنا و صدقنا کہتے چلے جا رھے ھیں اس لئے کہ راوی طاقتور ھیں ،راوی قابلِ بھروسہ ھیں،، میرے لئے میرے نبی ﷺ اور نبی ﷺ کے کردار وسیرت پر میرا ایمان خدا کے بعد سب زیادہ بھروسے کی چیز ھے ،،میں اپنے سے زیادہ کسی ثقاوت کا پابند نہیں ،، رہ گئے راوی تو ان کی تفصیل بھی آنے کو ھے کہ کس طرح خاندان اور نسل تک تبدیل کی گئ علاقہ اور رھائش تک جعلی بنا کر ثقہ ترین راوی تیار کیا گیا جس نے اسلام کو ویسا ھی نقصان پہنچایا جیسا سینٹ پال نے عیسائیت کو پہنچایا تھا ، 
ذرا یہ بیان پڑھئے ،،،
( ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا ، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَاءَهَا ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مُنَكِّسَةٌ رَأْسَهَا ، فَلَمَّا كَلَّمَهَا النَّبِيُ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ. فَقَالَ : قَدْ أَعَذْتُكِ مِنِّى . فَقَالُوا لَهَا : أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ . قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ لِيَخْطُبَكِ . قَالَتْ : كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ . فَأَقْبَلَ النَّبي صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ حَتَّى جَلَسَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ، ثُمَّ قَالَ : اسْقِنَا يَا سَهْلُ . فَخَرَجْتُ لَهُمْ بِهَذَا الْقَدَحِ فَأَسْقَيْتُهُمْ فِيهِ ، فَأَخْرَجَ لَنَا سَهْلٌ ذَلِكَ الْقَدَحَ فَشَرِبْنَا مِنْهُ . قَالَ : ثُمَّ اسْتَوْهَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَعْدَ ذَلِكَ فَوَهَبَهُ لَهُ )
یہ بخاری شریف کی حدیث ھے جو کتاب الاشربہ میں درج ھے کہ جس میں پانی پینے اور پیالے کا ذکر ھے ،،
نبئ کریم ﷺ کی مجلس میں نبئ کریم ﷺ سے عرب کی ایک عورت ( کے حسن و جمال ) کا ذکر کیا گیا ، تو آپ نے ابا اسید الساعدی کو حکم دیا کہ اس کو لانے کے لئے بندہ بھیجو ،،، تو انہوں نے بندہ بھیج دیا ،، تو وہ عورت آ گئ اور بنی ساعدہ کے قلعوں میں اتاری گئ – چنانچہ نبی کریم ﷺ اس سے ملاقات کے لئے نکلے یہانتک کہ اس کے پاس آئے اور اس والے کمرے میں داخل ھو گئے ، دیکھا کہ ایک عورت سر نیچے کیئے بیٹھی ھے ، جب نبئ کریم ﷺ نے اس سے بات شروع کی تو اس نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ چاھتی ھوں آپ سے – اس پر آپ نے فرمایا کہ تمہیں مجھ سے اللہ کی پناہ مل گئ اور وھاں سے نکل آئے ،جب حضورﷺ نکل آئے تو لوگوں نے اس کو بولا کہ تمہیں پتہ ھے یہ کون تھے ؟ یہ رسول اللہ تھے جو تم سے شادی کرنے آئے تھے ،، اس نے کہا کہ میں اس معاملے میں بدبخت ھی ھوں ، اس کے بعد آپ آ کر ساتھیوں سمیت سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ھوئے اور فرمایا کہ اے سھل مجھے کچھ پینے کو دو تو میں ان کے لئے یہ پیالہ نکال کر لایا ،جس میں آپ ﷺ کو پانی پلایا ،سھل نے وہ پیالا نکال کر دکھایا تو ھم سب نے اس میں پانی پیا ،پھر عمر بن عبدالعزیز نے آپ ﷺ سے وہ پیالہ مانگ لیا اور آپ نے اس کو ھبہ کر دیا ،،
1- سب سے پہلے اس بات کا تصور کریں کہ نبئ کریم ﷺ کی مجلس میں لوگوں کی بہو بیٹیوں کے حسن کے چرچے ھوتے ھونگے ؟ 
2- پھر یہ چرچا سنتے ھی نبئ کریم ﷺ بندے کی ڈیوٹی لگاتے ھیں کہ منگوا لو اسے ،،، ؟ کہیں نکاح کا ذکر ھے ؟ کہیں اس کے ولی سے بات چلانے کا ذکر ھے ؟ اس کو تو یہ تک پتہ نہیں کہ اس کے عجلہ عروسی میں آیا کون ھے ،، ؟ نکاح تو ابھی ھونا تھا ابھی تو وہ صرف منگوائی گئ ھے ،، کمرے میں جا کر نکاح کی شرائط طے ھوتی ھیں ،، اسی واقعے کی اب مزید تفصیلات دیکھئے ،،
3- ( خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ الشَّوْطُ ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ ، فَجَلَسْنَا بَيْنَهُمَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : اجْلِسُوا هَا هُنَا . وَدَخَلَ وَقَدْ أُتِىَ بِالْجَوْنِيَّةِ ، فَأُنْزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي نَخْلٍ فِي بَيْتٍ أُمَيْمَةُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِيلَ ، وَمَعَهَا دَايَتُهَا حَاضِنَةٌ لَهَا ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي .
4- قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
یہ بھی بخاری کی روایت ھے کہ ھم نبئ کریم ﷺ کے ساتھ نکلے یہانتک کہ ایک حویلی کے پاس رکے جسے الشوط کہتے تھے جب ھم دو دیواروں کے بیچ پہنچے تو رسول اللہﷺ سمیت سب ان کے درمیان بیٹھ گئے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے کہا تم لوگ یہاں بیٹھو اور جونیہ کے یہاں داخل ھو گئے ، وہ امیمہ بنت النعمان بن شراحیل کے باغ میں اتاری گئ تھی اس کے ساتھ اس کی دایہ تھی ( واضح رھے کہ اس حدیث میں جونیہ عورت الگ ھے مدینے کے باھر سے بلائی گئ ھے اور امیمہ بنت شراحیل کے گھر اس کی بارات اتاری گئ ھے ،جس میں ابھی اس کا نکاح بھی نہیں ھوا ،مگر تھوڑی دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ یہ جونیہ شونیہ کوئی نہیں تھی اسی امیمہ بنت شراحیل کو ھی دلہن ثابت کیا جائے گا ،لہذا وہ قصہ کہ عرب کی کسی عورت کے حسن و جمال کا چرچا ھوا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کو لانے کے لئے بندہ بھیجو خود بخود ایک جھوٹ ثابت ھو گا )
جب نبئ کریم ﷺ اس کے حجرے میں داخل ھوئے تو کہا کہ اپنا آپ مجھے ھبہ کرو دو ،، اس نے کہا بھلا کوئی ملکہ کسی عام آدمی " السوقہ " کو اپنا آپ ھبہ کرتی ھے ؟ پس آپ ﷺ نے اس کی وحشت دور کرنے کے لئے ھاتھ اس پر رکھا ھی تھا کہ اس نے کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاھتی ھوں ، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے اس کی پناہ لے لی ھے جس کی پناہ دی جاتی ھے ، پھر ھماری طرف نکلے اور کہا کہ اے ابا اسیدؓ اس کو جوڑا کپڑوں کا دے کر اس کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ ،،
اتنا اھم قصہ ھو اور فاروقیؓ اور صدیقیؓ خاندان منافقوں کے وار سے بچ جائے ،،
کہا گیا کہ جناب اس بیچاری کو تو حفصہؓ اور عائشہؓ نے پٹی پڑھائی تھی اور غلط راہ پر لگایا تھا ، ان دونوں میں سے ایک اس کو مہندی لگا رھی تھی اور دوسری اس کے بال بنا رھی تھی اور اس کو کہہ رھی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ ایسی عورت کو بالکل پسند نہیں کرتے جو فوراً اپنا آپ سونپ دے، بلکہ نخرے کرنے والی کو پسند کرتے ھیں لہذا جب وہ تمہارے پاس آئیں تو کہنا اعوذ باللہ منک ،،، یہ جملہ رسول اللہ ﷺ کو بہت پسند ھے ،لہذا وہ بیچاری ان دونوں کے بہکاوے میں آ گئ اور کہہ بیٹھی ،بعد میں جب رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں بتایا گیا کہ اس عورت نے آپ کی بے عزتی حفصہؓ اور عائشہؓ کے پٹی پڑھانے کی وجہ سے کی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ " یہ دونوں یوسف والی عورتیں ھیں " کونسی ذرا قرآن سے پوچھ لیجئے " فلما سمعت بمکرھن " جب زلیخا نے ان کے مکر کے بارے میں سنا ،، یوسف بادشاہ کو کہتے ھیں " ان ربی بکیدھن علیم " میرا رب ان کی چال سے بخوبی واقف ھے ،،، اس کا نام ھے تبرہ ،، اے ایمان والو ،، جنید جمشید کے ایک جملے پر توھین کے فتوے دینے والو تمہاری کتابوں میں ازواج النبیﷺ ، ابوبکرؓ و عمرؓ کی بیٹیوں اور امت کی ماؤں کو مکار اور چالباز کہا جا رھا اور کیسی سیاسی تلمیح کے ساتھ کہ تمہیں ذرا بھی کڑوا نہیں لگا " انھن صواحب یوسف )
ابھی آگے مزید بہت کچھ باقی ھے مگر جو باقی ھے وہ اسی واقعے کے بطن سے نکلا ھے جب اس کی ماں ھی ثابت نہیں ھو گی تو بیٹی کا وجود خود بخود ھوا ھو جائے گا ،،
پہلے جو عبارت امہات المومنینؓ کے بارے میں لکھی ھے اس کا عربی متن ملاھظہ فرما لیجئے ،،
رواها ابن سعد أيضا في "الطبقات" (8م145) قال : أخبرنا هشام بن محمد بن السائب ، عن أبيه ، عن أبي صالح ، عن بن عباس قال : ( تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أسماء بنت النعمان ، وكانت من أجمل أهل زمانها وأشبهم ، قال فلما جعل رسول الله يتزوج الغرائب قالت عائشة : قد وضع يده في الغرائب يوشكن أن يصرفن وجهه عنا . وكان خطبها حين وفدت كندة عليه إلى أبيها ، فلما رآها نساء النبي صلى الله عليه وسلم حسدنها ، فقلن لها : إن أردت أن تحظي عنده فتعوذي بالله منه إذا دخل عليك . فلما دخل وألقى الستر مد يده إليها ، فقالت : أعوذ بالله منك . فقال: أمن عائذ الله ! الحقي بأهلك )
وروى أيضا قال : أخبرنا هشام بن محمد ، حدثني ابن الغسيل ، عن حمزة بن أبي أسيد الساعدي ، عن أبيه - وكان بدريا – قال : ( تزوج رسول الله أسماء بنت النعمان الجونية ، فأرسلني فجئت بها ، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك . فلما دخلت عليه وأغلق الباب وأرخى الستر مد يده إليها فقالت : أعوذ بالله منك . فتال بكمه على وجهه فاستتر به وقال : عذت معاذا ، ثلاث مرات . قال أبو أسيد ثم خرج علي فقال : يا أبا أسيد ألحقها بأهلها ومتعها برازقيتين ، يعني كرباستين ، فكانت تقول : دعوني الشقية )
يرويها ابن سعد في الطبقات (8/144) بسنده عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى قال: (الجونية استعاذت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وقيل لها : هو أحظى لك عنده . ولم تستعذ منه امرأة غيرها ، وإنما خدعت لما رؤي من جمالها وهيئتها ، ولقد ذكر لرسول الله من حملها على ما قالت لرسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنهن صواحب يوسف ).
یہ عورت کون تھی ، اس کے بارے میں سات اقوال ھیں اور زیادہ تر کے نزدیک یہ امیمہ بنت شرحبیل خود تھی جس کے باغ میں اس نام نہاد بادشاہ کی بیٹی کو اتارا گیا تھا جس کے جمال کے قصے نے نبئ کریم ﷺ کو اسے بلانے پر آمادہ کیا تھا ،،نہ کوئی ایسی عورت تھی نہ کوئی قصہ مجلس میں بیان ھوا ، نہ وہ لائی گئ اور نہ نبئ کریم ﷺ اس کے پاس گئے اور نہ اس نے وہ توھین آمیز جملہ کہا کہ " کوئی ملکہ کسی بازاری یا " لے مین " یا عام آدمی کو اپنا آپ کیونکر سونپ سکتی ھے ،، جب امیمہ خود مدینے کی تھی تو رسول اللہ ﷺ سارے مدینے کو جانتے تھے،، عرب کی ایک عورت کا ذکر ھوا والی بات سب جھوٹ ثابت ھو گئ ، اور امیمہ والی بات بھی جھوٹ ثابت ھو گئ کیونکہ وھی میزبان اور وھی دلہن ،، ؟ الجبرے کے کراس نے آمنے سامنے کے دونوں واقعات کو جھوٹ ثابت کر دیا ،، امام بخاری اس کو لائے تھے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ طلاق آمنے سامنے بھی دی جا سکتی ھے اور دو کپڑوں میں عورت کو رخصت بھی کیا جا سکتا ھے،مگر جب وہ نکاح ھی جونیہ سے ثابت نہیں ھوا ، تو طلاق کیسے ثابت ھو گئ ؟ وہ کیسا بادشاہ تھا جس نے بیٹی کو یہ بتائے بغیر اونٹ پر لاد کر بھیج دیا کہ اس کا نکاح کس کے ساتھ ھو رھا ھے ، اور بیٹی سے جو حشر منافقین نے رسول اللہ ﷺ کا کروایا اور ھم جس کا ھر سال دورہ کرتے ھیں وہ سب کے سامنے ھے ؟
اختلف العلماء في اسم هذه المرأة على أقوال سبعة ، ولكن الراجح منها عند أكثرهم هو : " أميمة بنت النعمان بن شراحيل المدنیہ" كما تصرح رواية حديث أبي أسيد . وقيل اسمها أسماء
اگلی حدیث کے مطابق نبئ کریم ﷺ جب اس جونیہ عورت کے پاس سے نکلے تو بڑے غصے اور افسوس کی کیفیت مین تھے کہ باھر ایک اور صاحب سے ٹکراؤ ھوا جس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ھوں میرے پاس اسے سے زیادہ صاحب نسب و جمال عورت ھے ، حضورﷺ نے پوچھا کہ وہ کون ھے ؟ اس نے کہا کہ میری بہن ھے ،، آپﷺ نے فرمایا کہ " میں نے اس سے نکاح کیا " اشعث اپنی بہن کو لانے یمن چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ کا مرض زور کر گیا ، اور آپ کی رحلت ھو گئ ،، اشعث اور اس کی بہن ابھی رستے میں ھی تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے انتقال کی خبر ان کو ملی جس پر بہن اور بھائی دنوں مرتد ھو کر واپس چلے گئے، یوں ایک ام المومنین قتیلہ رخصتی سے پہلے مرتد ھو گئ ، جب بعد میں فتنہ ارتداد ٹھنڈا ھوا تو اس نے ایک اور شخص سے شادی کر لی ، جبکہ دوسری روایت میں عکرمؓہ بن ابی جھل سے شادی کر لی ،جس پر ابوبکر صدیقؓ نے عکرمہ کو حد لگانے کی فیصلہ کر لیا کیونکہ ام المومنین سے شادی کبیرہ گناہ اور ماں سے شادی کے مترادف تھا مگر عمرؓ نے سمجھایا کہ نہ تو اس کی رخصتی عمل میں آئی تھی اور نہ اس کو پردہ کرایا گیا تھا لہذا ام المومنین والی حرمت اس پر لاگو نہیں ھوتی ،، مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پہلا واقعہ بھی سرے سے جھوٹ کا پلندہ اور نبئ کریمﷺ کے کردار پر منافقین کا کڑا وار ھے اور دوسرا خود بخود جھوٹ ثابت ھو جاتا ھے کیونکہ جب امیمہ مدینے کی ھی ھے تو وہ حضور ﷺ سے واقف کیوں نہیں تھی ؟ پوری اسٹوری کا اضطراب ،اور چکر در چکر بتاتا ھے کہ راویوں سے بات سنبھالی نہیں جا رھی ، لہذا اس کا بہتر علاج ان دو شادیوں کا اعتراف نہیں بلکہ درود شریف ھے ، ان اللہ ملائکتہ یصلون علی النبی ، یا ایہا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیماً ، حضرت زینب بنت جحشؓ والے اسیکنڈل کے بعد یہی حکم اللہ نے دیا تھا کہ جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ سنو تو میرے نبی ﷺ پر درود پڑھا کرو اور اپنا آپ مکمل طور پر ان کو سونپ دو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے ھر وقت اس نبئ کی تعریفیں کرتے رھتے ھیں ،،
ابن سعد طبقات میں لکہتے ہیں
جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور پھر عکرمہ بن ابی جھل نے ان سے نکاح کیا۔
آگے لکہتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے نکاح کرلیا یہ بات حضرت صدیق رضہ کو گراں گزری لیکن حضرت عمر رضہ نے انہیں کہا کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ کرایا اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے اپنی قوم کے ساتھ